ایک عظیم جاپانی فلم ساز: آکیرا کورو ساوا
عالمی سنیما میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے جاپانی فلم سازوں میں سے ایک معتبر نام ’آکیرا کورو ساوا‘ کا ہے، جن کو ہم جدید جاپانی فلمی صنعت کا ’بابائے سنیما‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
انہوں نے مصوری سے اپنے فنی سفر کی ابتدا کی، آگے چل کر یہ شوق فلم سازی کے مشغلے میں بدل گیا۔ ان کی فلموں کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ فلموں میں فریم سیٹ کرنے کے بجائے منظر کو سیٹ کرتے تھے۔ ان کا بنایا ہوا فریم کوئی پینٹنگ ہی محسوس ہوتا اور یہ خوبی ان کی اکثر فلموں میں دیکھی بھی جاسکتی ہے، یہ ان کی مشہور سنیما تکنیک میں سے ایک تھی جس کے لیے وہ عالمی طور پر پہچانے جاتے ہیں۔
شروعات میں تو انہوں نے کچھ فلمیں لکھیں لیکن پھر ہدایت کاری میں دلچسپی زیادہ بڑھ گئی اور یوں دونوں کام ساتھ ساتھ بھی کرتے رہے۔ 40 کی دہائی میں دوسری جنگِ عظیم اپنے انجام کو پہنچ رہی تھی اور ’آکیرا کورو ساوا‘ بطور ہدایت کار فلمی صنعت میں اپنے کیریئر کا آغاز کر رہے تھے۔ انہوں نے تقریباً 6 دہائیوں میں 30 سے زائد فلموں کی ہدایت کاری کی جبکہ 80 کے قریب فلموں کے اسکرپٹ لکھے، جن میں زیادہ تر فلموں میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔
انہوں نے 25 فلموں میں تقریباً نائب ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیے۔ 17 فلمیں پروڈیوس کیں اور 11 فلموں کی ایڈیٹنگ کا کام بھی خود کیا۔ ایک آدھ فلم کی موسیقی مرتب کرنے میں بھی شامل رہے، اس طرح فلم کی سائنس کو اپنے آرٹ میں ملا کر فلم بینوں کے لیے سنیما کے پردے پر حیران کن منظرنامہ پیش کیا۔
’آکیرا کورو ساوا‘ اسکرپٹ رائٹنگ اور ہدایت کاری کے علاوہ ایڈیٹنگ سمیت فلم کے دیگر شعبوں میں بھی مہارت رکھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ فلم کے تمام مراحل سے بخوبی واقف تھے۔ 1990ء میں زندگی بھر کی فلمی خدمات کے عوض انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ کا اعزازی آسکر ایوارڈ دیا گیا۔
اسٹیون اسپیل برگ سمیت ہولی وڈ میں آج کے کئی نامور ہدایت کاروں نے اپنے فنی کیرئیر میں آگے بڑھنے کے لیے’آکیرا کورو ساوا‘ کے منفرد اور جدت طراز سنیما کی پیروری کا اعتراف کیا اور انہیں اپنا استاد بھی مانا۔ خاص طور پر اسٹیون اسپیل برگ کی ان سے فرمانبرداری قابلِ ستائش ہے۔ انہوں نے آکیرا کو نہ صرف اپنا آدرش مانا بلکہ ہولی وڈ میں پروڈکشن کے تناظر میں ’آکیرا کورو ساوا‘ کی فلموں کے لیے معاشی امداد میں پیش پیش رہے اور کئی مواقع پر ان کو کھلے دل سے خراجِ تحسین پیش کیا۔ اسی طرح یورپی اور ایشیائی سنیما کے نامور فلم ساز بھی ان کی فنی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔
آج بھی ہولی وڈ میں ان کی فلموں کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں، جس کی ایک مثال معروف امریکی فلم سیریز ’اسٹار وارز‘ ہے جس کا مرکزی خیال ’آکیرا کورو ساوا کی فلم ’دی ہڈن فور ٹریس‘ سے اخذ کیا گیا۔
اس فلم کے ہدایت کار ’جے جے ابرامز‘ اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ انہوں نے فلم بنانے کے کئی نئے طریقے ’آکیرا کورو ساوا‘ سے ہی سیکھے۔ سچ یہ ہے کہ ’آکیرا کوروساوا‘ کی اس شہرت کی وجہ سے ہی بہت سارے ایسے جاپانی فلم سازوں کو عالمی سنیما میں توجہ حاصل ہوئی جو پہلے صرف جاپان تک محدود تھے۔ ان میں ایچی کاوا، ماساکی کوبیاشی، ناگیسا اوشیما، شوہیے امامورا، جوزواتامی، تاکیشی کیتانو اور تاکیشی میکی کے نام نمایاں ہیں۔ ’آکیرا کورو ساوا‘ کی بین الاقوامی مقبولیت کی وجہ سے اب عالمی سنیما میں جاپان بھی ایک خاص حوالہ رکھتا ہے۔
’آکیرا کورو ساوا‘ کی تاریخ پیدائش 23 مارچ 1910ء ہے، وہ جاپان کے شہر ٹوکیو میں پیدا ہوئے جبکہ 6 ستمبر 1998ء کو اسی شہر میں ان کی تدفین ہوئی۔ انہوں نے اپنی 88 سالہ زندگی کا بڑا حصہ فلم سازی میں متحرک گزارا۔ وہ چاہتے تھے کہ جب اس دنیا سے رخصت ہوں تب بھی فلم کے سیٹ پر ہمہ تن مصروف ہوں، لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔
وہ زندگی کے آخری حصے میں ایک حادثے کے سبب وہیل چیئر پر آگئے اور اس معذوری کی وجہ سے زندگی کے آخری برسوں میں کام نہ کرسکے۔ ایک بار کیرئیر میں ایسا موڑ بھی آیا جب دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی لیکن محفوظ رہے۔ بس ان کے ذہن میں موت سے ملاقات کی بہترین جگہ فلم کا سیٹ تھا کہ جب وہ آئے تو وہاں انہیں مصروف پائے۔
فلم سازی کے سلسلے میں انہوں نے دنیا بھر کا سفر کیا اور عالمی سنیما کے کئی بڑے فلم سازوں سے ملے۔ وہ کئی عالمی فلم سازوں سے متاثر بھی رہے جن میں خاص طور پر اٹلی کے فرینک کیپرا، امریکا کے ڈی ڈبیلو گرفتھ، جون فورڈ اور جرمنی کے ایف ڈبلیو مورناؤ شامل ہیں۔ جاپانی اور عالمی ہم عصر فلم سازوں سے بھی دوستیاں قائم کیں۔
ہولی وڈ میں بہت سارے نامور فلم ساز ان کے دوست رہے جبکہ مداحین کی کثیر تعداد ان کے علاوہ ہے۔ جاپانی فلمی صنعت میں 2 اداکاروں کے ساتھ ان کی دوستی ایک مثال بنی جن کے نام ’تاکیشی شیمورا‘ اور ’توشی رومیفونی‘ ہیں۔ ان میں ایک کو 21 جبکہ دوسرے کو 16 فلموں میں کاسٹ کیا۔ ان اداکاروں سے ’آکیرا کورو ساوا‘ کی ذہنی ہم آہنگی قابلِ تعریف تھی۔
ایشیائی فلمی ہدایت کاروں میں ایران کے مشہور ترین فلم ساز ’عباس کیارستمی‘ سے ان کی شناسائی تھی جبکہ انڈیا سے تعلق رکھنے والے معروف بنگالی فلم ساز ’ستیا جیت رے‘ سے بھی ان کے دوستانہ مراسم تھے بلکہ وہ خود کو ان کی بنگالی شعور کی عکاسی کرتی ہوئی فلموں کا مداح بھی کہتے تھے۔
وہ 1977ء میں چھٹے فلم فیسٹیول میں شرکت کے لیے دہلی، انڈیا آئے تو ’ستیا جیت رے‘ کے ساتھ تاج محل دیکھنے بھی آگرہ تشریف لائے تھے۔ ان کے ہمراہ یونانی نژاد امریکی فلم ساز ’ایلیا کازان‘ اور اطالوی فلم ساز ’مائیکل اینجلوانتھونیو‘ بھی تھے۔ اس موقع کی ایک یادگار تصویر بھی ہے۔
جاپانی فلمی صنعت کی عمر بھی تقریباً 100 سال سے کچھ اوپر ہے جس میں ’آکیرا کورو ساوا‘ وہ جاپانی فلم ساز ہیں جن کی بدولت جاپانی فلم سازوں اور اداکاروں کو بین الاقوامی سنیما تک رسائی ملی۔ ان کا فلمی کیریئر 1936ء سے شروع ہوتا ہے۔
مصوری کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ بچپن میں جاپان کے روایتی مارشل آرٹ اور خطاطی سے بھی واسطہ رہا۔ نامساعد حالات کے باوجود فلم سازی کے شعبے میں آگے بڑھتے رہے، نائب ہدایت کاری کے بعد جلد بطور ہدایت کار فلمی افق پر نمایاں ہوگئے۔ گھر کا ماحول بھی ایسا تھا کہ مغربی فلمیں بہت دیکھیں اور اسی لیے بہت کم عمری سے ان کو فلم کے میڈیم کی سمجھ تھی جبکہ ان کا ایک بھائی خاموش فلموں کا صدا کار بھی تھا جس کی رہنمائی کے ذریعے انہیں سنیما کے ساتھ وابستگی کا موقع مل پایا۔
’آکیرا کورو ساوا‘ کو والد کی طرف سے ورثے میں ’سمورائی ثقافت‘ ملی تھی۔ والدہ اوساکا شہر کے تاجر خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، لہٰذا ان کی ذات ٹوکیو اور اوساکا دونوں شہروں کے مزاج کا حسین امتزاج تھی۔ 8 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کے ناطے گھر میں سب کی آنکھوں کا تارا بھی تھے۔ والد کی طرف سے تربیت میں مشرقی تمدن کے ساتھ ساتھ مغربی علوم اور افکار بھی ملے، جس سے ان کی شخصیت میں ہمہ جہتی رنگ در آئے۔ خاص طور پر مغربی تھیٹر اور فلموں کو بھی ان کے لیے تعلیم کا حصہ سمجھا گیا، یوں کم عمری میں ان کی رسائی مغربی سنیما تک ہوئی جس سے ان کے فلمی ذوق کی نشو نما ہوئی۔ یہی وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے جاپان کو ایک ایسا عظیم فلم ساز میسر آیا۔
اسکول کے زمانے میں ان کو ایسے اساتذہ بھی میسر آئے، جنہوں نے روشن خیالی کے تحت ان کی تدریسی اور فکری تربیت کی جس کے اثرات ان کی پوری زندگی پر نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے زمانے میں یہ ہدایت کاری کے کیریئر کو کامیاب کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے تھے اور انہی دنوں شادی کے بندھن میں بھی بندھے۔ 1923ء میں آنے والے شدید زلزلے سے ٹوکیو اور یوکوہاما کے شہروں میں جو تباہی ہوئی، کہا جاتا ہے کہ اس کے اثرات بھی ان کی زندگی پر منقش ہوئے۔ زندگی میں ملنے والی ذاتی تلخیوں اور مسرتوں نے انہیں حساس بنا دیا، یوں ’آکیرا کورو ساوا‘ ماہر اور نبض شناس فلم ساز ثابت ہوئے۔
’آکیرا کورو ساوا‘ نے نائب ہدایت کار کے طور پر 5 برس تک ایک مقامی اسٹوڈیو میں کام کیا جہاں ان کو مختلف ہدایت کاروں کے ساتھ کام سیکھنے کا موقع ملا۔ یہی نہیں بلکہ یہ وہی دور ہے جب وہ خود بھی اپنے آپ کو بطور فلم ساز تلاش کر رہے تھے۔ اس دور میں اپنے کیریئر کی 25 فلموں میں سے 17 فلمیں انہوں نے ایک ہی ہدایت کار کے ساتھ کیں اور اس شعبے میں وہی ان کے استاد ہوئے، ان کا نام ’کاجیرو یاماموتو‘ تھا۔ ان کی وجہ سے ’آکیرا کورو ساوا‘ کو فلم کے مختلف شعبوں میں کام سیکھنے اور آگے بڑھنے کا موقع ملا جس سے ان کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔ انہوں نے اپنے استاد کی اس نصیحت کو پلّے سے باندھ کر رکھا کہ ’ایک اچھے ہدایت کار کو ہمیشہ جاندار اسکرپٹ کی ضرورت ہوتی ہے‘۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی فلموں میں کہانی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
انہوں نے اپنی کئی فلموں کے اسکرپٹ عالمی ادب سے متاثر ہوکر بھی لکھے اور ان پر فلمیں بنائیں جن میں برطانوی کلاسیکی ڈراما نگار اور شاعر ’ولیم شیکسپیئر‘، معروف روسی ناول نگار ’فیودر دوستوفسکی‘ اور ’میکسیم گورکی‘ کے ساتھ ساتھ امریکی ناول نگار ’ایون ہنٹر‘ شامل ہیں۔ یہ بین الاقوامی ادب سے مستعار لینے والی کہانیوں اور ان کے کرداروں کو جاپانی منظرنامے میں ڈھالنے کے ماہر تھے، یہی وجہ ہے کہ ان غیر ملکی کہانیوں کو بھی جاپانی فلم بینوں نے پذیرائی بخشی۔
عالمی ادب کے اشتراک سے بنائی جانے والی فلموں کو باکس آفس پر زبردست کامیابیاں ملیں۔ بطور تخلیق کار ’آکیرا کورو ساوا‘ کو جاپانی ثقافت، عالمی تناظر میں پیش کرنے کا ہنر بھی ہاتھ لگا جس پر عمل درآمد کرنے کے بعد ہی ان کو عالمی سینما میں فلم بینوں کی بھرپور توجہ حاصل ہوئی۔ کئی فلموں کے اسکرپٹس لکھتے ہوئے جاپانی تھیٹر کی 2 معروف اقسام نوہ اور کابوکی کے ڈراموں سے بھی استفادہ کیا۔ ان کی ہدایت کاری میں ریڑھ کی ہڈی ’توہو اسٹوڈیو‘ تھا جس نے ان کی 11 فلمیں پروڈیوس کیں، یہیں سے یہ بطور ہدایت کار پوری طرح نمایاں ہوئے اور آگے چل کر کئی اسٹوڈیوز اور فنکاروں کے ساتھ کام کیا جن کی تفصیل کے لیے الگ دفتر درکار ہے۔
بطور ہدایت کار آگے بڑھنے کے لیے ’آکیرا کورو ساوا‘ کو کسی بہت اچھی کہانی کی تلاش تھی۔ 1942ء میں جاپان کے پرل ہاربر پر حملے کے بعد ’موساشی میاموتو‘ کا ایک ناول ’سنشیرو سوگاتا‘ شائع ہوا جو اس قدر پسند آیا کہ فوری طور پر اس کے حقوق خرید لیے اور اس کہانی پر فلم بنانا شروع کردی۔
اگلے سال یہ فلم ریلیز ہوئی تو اس وقت ’آکیرا کورو ساوا‘ کی عمر صرف 33 برس تھی۔ اس کو باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل ہوئی تو یہ تخلیقی سلسلہ چل نکلا۔ اس زمانے میں ان کی بنائی گئی فلموں پر جنگی اثرات بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کیرئیر میں مقبولیت پالینے کے کافی عرصے بعد اسی موضوع پر آکیرا دوبارہ ایک فلم کی مغربی پروڈکشن کا حصہ بنے اور اس سے ساکھ بھی متاثر ہوئی۔ اس فلم کا نام ’تورا تورا تورا‘ تھا۔
دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر ان کے رجحانات میں تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ انہوں نے ایک نئے جذبے اور عزم کے ساتھ فلمیں بنانا شروع کیں۔ خاص طور پر مغرب کے سنیما کو سمجھا اور اس کے مطابق اپنی روایتی فلمی صنعت کو ملا کر فلمیں بنانا شروع کیں۔ عام طور پر درج ذیل فلموں کو ان کی بہترین 10 فلمیں تصور کیا جاتا ہے لیکن ان تمام فلموں میں سے ’سیون سمورائی‘ کو ایک جداگانہ اور ممتاز حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس نے ’آکیرا کورو ساوا‘ کو عالمی سنیما کا فلم ساز بنوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ اپنے وقت کی جاپانی سنیما کی مشہور اور مہنگی ترین پروڈکشن بھی تھی جس کو بنانے میں ان کو سرتوڑ کوششیں کرنا پڑی۔
آکیرا کورو ساوا کی 10 بہترین فلموں کے نام اور ریلیز کے سال کی فہرست پیش خدمت ہے۔
1 ۔ سیون سمورائی (Seven Samurai-1954)
2 ۔ اِکیرو (Ikiru-1952)
3 ۔ ران (Ran-1985)
4 ۔ راشومون (Rashomon-1950)
5 ۔ یوجیمبو (Yojimbo-1961)
6 ۔ ہائی اینڈ لو (High and Low-1963)
7 ۔ دی بیڈ سلیپ ویل (1960-The Bad Sleep Well)
8 ۔ تھرون آف بلڈ (Throne of Blood-1957)
9 ۔ اسٹرے ڈوگ (Stray Dog-1949)
10 ۔ ریڈ بیئرڈ (Red Bread-1966)
’آکیرا کورو ساوا‘ کا شمار دنیا کے ان بہترین فلم سازوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی فلموں کے ذریعے جدت پسندانہ اور روشن خیال سنیما کو فروغ دیا۔ پہلے خود مغربی سنیما سے متاثر ہوئے اور اپنے کام سے اسی مغربی سنیما کو متاثر بھی کیا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ فلم سازی کے ہر شعبے میں کام کیا اور عملی طور پر فلم بننے کے ہر مرحلے سے واقفیت حاصل کی۔
وہ خود چونکہ کہانی نویسی کی خداداد صلاحیت سے بھی مالامال تھے، اس نے ان کے کام کو چار چاند لگا دیے، یہی وجہ ہے کہ اچھی کہانیوں اور عمدہ کیمرہ تکنیک کے ساتھ دیگر پہلوؤں سے مضبوط اور شاندار فلمیں تخلیق کیں جن پر انہیں داد و تحسین اور تنقید دونوں طرح کے ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان کے کیے ہوئے کام پر بات ہوئی۔ انہی کے کئی اور ہم عصر فلم ساز بھی تھے جن کے پاس تمام وسائل تھے لیکن جو شہرت اور مقبولیت ان کے حصے میں آئی وہ کسی اور جاپانی فلم ساز کو نصیب نہ ہوسکی۔
معروف فرانسیسی فلم ساز ’جیکیوس ریویٹ‘ نے’آکیرا کورو ساوا‘ کی سنیمائی قابلیت کے بارے میں کیا خوب کہا کہ ’یہ جاپانی فلم ساز جو مکمل طور پر جاپانی ہے لیکن اب تک صرف اور صرف ایک یہی ہے جس کی تخلیقی انفرادیت میں بھی آفاقیت ہے‘۔ دوسری طرف ان پر جاپانی فلمی تنقید نگاروں کی طرف سے یہ الزامات بھی لگتے رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی فلموں میں مغربی اثرات کے زیرِ اثر جاپان کی اشرافیہ کے لیے فلمیں بنائیں اور ان کا عام جاپانی سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ ان کا تعلق جاپان کے ایک دیہی علاقے سے تھا اور وہاں کے کسانوں کے لیے انہوں نے عملی طور پر کوئی اقدامات نہیں کیے۔