کورونا وائرس نے ایک بار پھر سرمایہ دارانہ نظام کی قلعی کھول دی

کورونا وائرس پاکستان آچکا ہے۔ اگر کوئی بھی اس خام خیالی میں مبتلا تھا کہ کورونا سے بچا جاسکتا ہے تو اسے اس خول سے باہر نکل آنا چاہیے۔ کہا جارہا ہے کہ 1920ء-1918ء کے ’ہسپانوی فلو‘ کے بعد کورونا جدید دور کی سب سے تباہ کن بیماری ثابت ہوگی۔ یاد رہے کہ اس ہسپانوی فلو کے سبب 5 سے 10کروڑ انسان جان کی بازی ہار گئے تھے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اب تک اس بیماری نے ’صرف’ چند ہزار ہی جانیں لی ہیں، لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ ملکوں نے اپنی سرحدیں بند کردی ہیں۔ دفاتر، اسکول اور معمول کی باقی زندگی کو بندشوں کا سامنا ہے۔ پوری کی پوری صنعتیں راتو رات تباہی کے دہانے پر کھڑی ہوچکی ہیں، جن میں فضائی کمپنیاں سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ امریکا سمیت دنیا بھر کی بڑی اسٹاک مارکیٹیں زوال پذیر ہیں۔
یقیناً ایسے بھی کاروبار ی حلقے ہیں جو اس مصیبت کا فائدہ اٹھارہے ہیں، تاہم مجموعی طور پر معاشی سرگرمیاں دن بہ دن محدود ہوتی جارہی ہیں اور اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ آنے والے مہینوں میں عالمی معیشت شدید بحران سے دوچار ہوگی۔
پاکستان کی تو معیشت پہلے سے ہی لڑکھڑا رہی تھی، لیکن کورونا کی وجہ سے معاملات کچھ زیادہ ہی خراب ہوجائیں گے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے جب کئی دنوں کی خاموشی کے بعد قوم سے خطاب کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت مکمل بندش کو برداشت نہیں کر پائے گی۔ اگرچہ انہوں نے ’گھبرانا نہیں ہے‘ کا نعرہ تو لگایا مگر ان کی باقی ساری باتوں سے ہر سننے والے نے یہ بخوبی اندازہ لگا لیا ہوگا کہ وہ خود بھی گھبرائے ہوئے ہیں اور حکمرانی کا نظام کھوکلے پن کا شکار ہے۔
سچ یہ ہے کہ عام حالات میں بھی بحرانوں کا سب سے زیادہ نقصان غریب اور لاچار حلقوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ کورونا سے متعلق سائنس بتاتی ہے کہ اس وائرس سے بوڑھوں یا پھر ان لوگوں کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے جن کی قوتِ مدافعت پہلے سے کمزور ہے۔
اگر یہ بیماری پاکستان میں بڑے پیمانے پر پھیلتی ہے تو صرف یہی حلقے متاثر نہیں ہوں گے۔ مثال کے طور پر آج کل ہر طرف ’سوشل ڈسٹنسنگ’ (سماجی فاصلہ) کی بات ہو رہی ہے۔ ماہرین اس بات پر بے حد زور دے رہے ہیں کہ دوسروں سے فاصلہ رکھنا ہی کورونا سے بچنے کا سب سے بہتر طریقہ ہے۔ کہا جارہا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو گھر وں کے اندر اپنے آپ کو پابند کرکے کام کریں لیکن پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کے بیشتر عوام گھروں کے اندر بیٹھ کر اپنی روزی روٹی نہیں کما سکتے۔
ریڑی لگانے والے بازار جاتے ہیں، ردی جمع کرنے والے شہر بھر گھومتے ہیں، کھیتی باڑی کرنے والے بیج اور دوائی لینے آڑھتی کی دکان جاتے ہیں، اور اسی طرح ہزاروں دیگر پیشے والے محنت کش گھروں سے باہر نکل کر اپنے بچوں کے پیٹ پالتے ہیں۔ جہاں تک ان کے گھروں کے اندر پابند ہونے کی بات ہے تو یاد رہے کہ پاکستان کی کُل شہری آبادی میں سے تقریباً 45 فیصد کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے۔ کچی آبادیوں میں ’گھر‘ کا مطلب وہ نہیں ہے جو کوٹھی والے تصور کرتے ہیں، ان گھروں کے اندر ’سوشل ڈسٹنسنگ‘‘ ممکن ہے اور نہ ہی گھروں کے درمیان۔