پشاور زلمی کو بارش، ’امام الحق‘ اور جیت مبارک ہو
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا پانچواں ایڈیشن برق رفتاری سے اپنے اگلے مرحلے کی جانب رواں دواں ہے۔ ٹورنامنٹ میں شریک ٹیموں کے مابین پلے آف مرحلے تک رسائی کے لیے رسہ کشی جاری ہے۔ اب تک ٹورنامنٹ میں 21 میچ کھیلے جاچکے ہیں لیکن ان میچوں کے بعد بھی کسی بھی ٹیم کی اگلے مرحلے تک رسائی یقینی نہیں ہوئی ہے۔
پاکستان سپر لیگ کے 15ویں دن 2 میچ کھیلے گئے۔ ٹورنامنٹ کا 20واں میچ راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں پشاور زلمی اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے مابین کھیلا گیا۔ پنڈی میں کھیلے جانے والے اس میچ کے بارے میں بھی خیال تھا کہ شاید بارش کی وجہ سے نہ کھیلا جاسکے، لیکن بارش نے رکنے اور گراؤنڈ اسٹاف نے انتھک محنت کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں میچ کا انعقاد ممکن ہوگیا۔
اس میچ میں پشاور زلمی کے کپتان وہاب ریاض نے ٹاس جیت کر ٹورنامنٹ کی روایت کے مطابق اپنی مخالف ٹیم کو بیٹنگ کی دعوت دی۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کو پہلے ہی اوور میں لیوک رونکی کی وکٹ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اسلام آباد کی مشکلات میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا اگر اننگز کے دوسرے ہی اوور میں زلمی کے کپتان وہاب ریاض کولن منرو کا کیچ پکڑنے میں کامیاب ہوجاتے۔
پھر منرو کا کیچ چھوڑنا زلمی کو مہنگا پڑا کیونکہ انہوں نے صرف 35 گیندوں پر 4 چوکوں اور 2 چھکوں کی مدد سے 52 رنز بنانے کے ساتھ ساتھ کپتان شاداب خان کے ساتھ صرف 40 گیندوں پر 67 رنز کی شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کو مقررہ اوورز میں ایک بڑا اسکور کرنے کے لیے شاندار پلیٹ فارم فراہم کردیا۔
اسلام آباد کی اننگز کی ایک اور خاص بات کپتان شاداب خان کی بیٹنگ رہی۔ شاداب اس ٹورنامنٹ میں شروع کے نمبرز پر بیٹنگ کر رہے ہیں اور اپنی بیٹنگ کے بھرپور جوہر دکھا رہے ہیں۔ شاداب خان نے صرف 42 گیندوں پر 5 چوکوں اور 4 چھکوں کی بدولت 77 رنز کی زبردست اننگ کھیلی۔ شاداب خان نے اب تک اس ٹورنامنٹ میں 170.50 کے اسٹرائیک ریٹ سے بیٹنگ کی ہے اور اب تک اس ٹورنامنٹ میں وہ سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
ویسے اس پوری اننگ میں بار بار ایسا لگ رہا تھا جیسے پشار والوں نے آج کیچ نا پکڑنے کی قسم کھالی ہو کیونکہ اس اننگ میں زلمی نے کم و بیش 6 کیچ گرائے۔ لیکن جہاں اتنے سارے کیچ چھوڑے گئے وہیں لوِنگ اسٹون نے 11ویں اوور میں کولن منرو کا ایک ناقابلِ یقین کیچ پکڑ کر سب کو حیران ہی کردیا۔ کمنٹیٹرز اس بارے میں بھی بات کرتے سنائی دیے کہ شاید یہ اس سیزن کا سب سے بہترین کیچ ہوگیا ہے۔
لیکن جب سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا تب اسلام آباد والے کچھ لڑکھڑا گئے اور وکٹیں ہاتھ میں ہونے کے باوجود بھی اننگ کے آخری 11 اوورز میں صرف 95 رنز بنائے جبکہ آخری 3 اوورز میں وہ صرف 22 رنز بنا سکے۔ یونائیٹڈ کا یہ کمزور اختتام اور بارش کا ایک نیا اسپیل میرے خیال میں ان کی شکست کی وجہ بن گیا۔
لیکن اسلام آباد کی جانب سے پہلی مرتبہ ایسا نہیں ہوا بلکہ اس ٹورنامنٹ میں متعدد مرتبہ اچھی پوزیشن میں ہونے کے باوجود یونائیٹڈ اپنی اننگ کے آخری اوورز کا صحیح انداز سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور ان کی یہ کمزوری ان کی شکستوں کی اہم وجہ بھی بنی۔
ہدف کے تعاقب میں پشاور زلمی نے کامران اکمل اور امام الحق کے ساتھ اننگز کا آغاز کیا لیکن امام الحق صرف 7 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ یاد رہے کہ اس ٹورنامنت میں امام نے 2 میچ کھیلے ہیں اور دونوں میں ہی ناکام رہے، دیکھتے ہیں کہ پشاور ان کو مزید کتنے مواقع فراہم کرتی ہے۔ ویسے اگر امام مزید ایک یا 2 اوور بیٹنگ کرلیتے تو پشاور کو یقینی طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایسا کیوں ہے آگے چل کر آپ کو خود سمجھ آجائے گا۔
پشاور زلمی کی طرف سے کامران اکمل نے دھواں دار 37 رنز کی اننگ کھیلی جبکہ نوجوان کھلاڑی حیدر علی نے صرف 8 گیندوں پر 16 رنز کی جارحانہ اننگ کھیل کر پشاور کی جیت کو یقینی بنادیا۔ پشاور زلمی نے جب 9 اوور میں 2 وکٹوں کے نقصان پر 85 رنز بنائے تو اچانک بارش شروع ہوگئی، یہ اتنی تیز تھی کہ دوبارہ میچ ہونے کے سارے امکان ختم ہوگئے اور یوں پشاور ڈک ورتھ لیوئس سسٹم کی بنیاد پر یہ میچ 7 رنز سے جیت گئی۔
اب آپ خود اندازہ لگائیے 77 کے اسٹرائیک ریٹ سے بیٹنگ کرنے والے اگر امام الحق مزید کچھ اوورز بیٹنگ کرلیتے تو پشاور مطلوبہ رنز بنانے میں ناکام رہتا اور یوں یہ میچ اسلام آباد کے حصے میں آجاتا، اس لیے اگر پشاور والے اس جیت کا کریڈٹ امام کو دیں تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
اس جیت کے بعد زلمی کے پلے آف مرحلے تک رسائی کی امید روشن ہوگئی ہے لیکن دوسری طرف اس شکست کے بعد اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ ان کو اپنے بقیہ دونوں میچ جیتنے کے ساتھ ساتھ دیگر ٹیموں کے مابین کھیلے گئے میچوں کے نتیجے پر بھی انحصار کرنا ہوگا۔
ٹورنامنٹ کا 21واں میچ لاہور کے قذافی اسٹڈیم میں لاہور قلندرز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مابین کھیلا گیا۔ یہ میچ دونوں ٹیموں کے لیے اس لیے اہم تھا کہ یہ دونوں ٹیمیں پوائنٹس ٹیبل پر نچلے نمبروں پر ہیں۔ اس میچ کو جیتنے والی ٹیم کے پاس تو ٹورنامنٹ کے اگلے راؤنڈ میں جانے کے مواقع موجود رہیں گے جبکہ ہارنے والی ٹیم کے لیے اگلے مرحلے تک پہنچنا خاصا مشکل ہوگا۔
ٹورنامنٹ کی روایت کے مطابق اس میچ میں بھی لاہور قلندرز کے کپتان سہیل اختر نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا اور کیا ہی خوب فیصلہ کیا۔ ان کے باؤلرز نے اننگ کے پہلے 6 اوورز میں ہی صرف 21 رنز کے اسکور پر کوئٹہ کے 6 کھلاڑیوں کو پویلین بھیج کر میچ پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ شاہین آفریدی نے ابتدائی 2 وکٹیں حاصل کیں جبکہ بعد کی 4 وکٹیں سمیت پٹیل نے حاصل کیں۔ سمیت پٹیل نے اپنے کوٹے کے 4 اوورز میں صرف 5 رنز دے کر 4 کھلاڑی آؤٹ کیے اور کوئٹہ کی بیٹنگ کی کمر توڑ دی۔
یاد رہے کہ یہ پاکستان سپر لیگ کی تاریخ کا بہترین باؤلنگ اسپیل ہے۔ ابتدائی وکٹیں جلد گرنے کے بعد لگتا تھا کہ کوئٹہ کی پوری ٹیم بمشکل 50 یا 60 رنز تک ہی پہنچے گی، لیکن سہیل خان نے نچلے نمبروں پر آنے والے کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر اپنی ٹیم کو 98 رنز تک پہنچا دیا۔
قلندروں نے 99 رنز کے ہدف کے تعاقب میں اپنی اننگ کا آغاز کیا تو کوئٹہ کے مداح کسی معجزے کے انتظار میں تھے لیکن ایسا کوئی معجزہ نہیں ہوا اور قلندرز نے باآسانی 12ویں اوؤر میں صرف 2 وکٹوں کے نقصان پر اپنا ہدف حاصل کرلیا۔
اس جیت کے بعد لاہور قلندرز کے پلے آف مرحلے میں پہنچنے کی امید کسی حد تک روشن ہوگئی ہے جبکہ شکست کے باعث کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی امیدوں پر اوس پڑگئی ہے۔ اسلام آباد کی طرح کوئٹہ کو بھی اگلے راؤنڈ میں پہنچنے کے لیے اپنے اگلے میچ جیتنے کے ساتھ ساتھ دیگر ٹیموں کے مابین کھیلے جانے والے نتائج پر انحصار کرنا پڑے گا۔
کوئٹہ آج جس پریشانی کا شکار ہے، اس میں ان کا اپنا بھی کردار ہے۔ 2 سے 3 میچوں میں ایسا ہوچکا کہ اس نے اپنی اپنی حریف ٹیم کو آدھی اننگ میں ہی قابو کرلیا، مگر اننگ کے دوسرے حصے میں اتنے رنز بنوا دیے کہ ان کے بیٹسمین پہاڑ جیسے ہدف کے تعاقب میں ناکام رہے۔ بیٹنگ کے شعبے میں بھی کوئٹہ جیسن رائے اور شین واٹس پر انحصار کر رہی تھی لیکن یہ دونوں کھلاڑی بھی موجودہ ٹورنامنٹ میں تسلسل کے ساتھ کارکردگی نہیں دکھا سکے ہیں۔
پاکستان سپر لیگ کے دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلوں میں ایک طرف موسم نے شائقین کی تفریح میں خلل ڈالا تو دوسری طرف تھرڈ امپائر کو جو ٹیکنالوجی فراہم کی گئی، اس کی بدولت ان سے فیصلوں میں غلطیاں ہوئیں۔
ایسی ہی ایک فاش غلطی راولپنڈی میں کوئٹہ اور پشاور کے مابین میچ میں ہوئی۔ وہاب ریاض کی گیند پر بین کٹنگ کے شاٹ کو باؤنڈری پر کھڑے فیلڈر نے کیچ کرلیا۔ امپائر کو شک ہوا کہ یہ نو بال ہے۔ جب انہوں نے اپنے شک کو یقینی بنانے کے لیے تھرڈ امپائر سے مدد مانگی تو تھرڈ امپائر کو 2 ری پلے دکھائے گئے۔ ایک میں باؤلر کا پاؤں معمولی سا لائن کے پیچھے تھا جبکہ ایک ری پلے میں پاؤں لائن سے باہر تھا۔ امپائر نے فیصلہ باؤلر کے حق میں دیا۔ لیکن بعد میں تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ امپائر کو فیصلہ کرنے کے لیے جو ری پلے دکھائے گئے تھے وہ 2 الگ الگ گیندوں کے تھے۔ ان میں سے ایک ری پلے تو ایسا تھا جس میں کٹنگ خود دوسرے اینڈ پر کھڑے نظر آرہے ہیں۔ امید ہے کہ جو لوگ بھی امپائرز کو تکنیکی معاونت فراہم کررہے ہیں، وہ ان معاملات کا بغور جائزہ لیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آنے والے میچوں میں اس نوعیت کی غلطیاں نہ ہوں۔
پاکستان سپر لیگ کے دوران اب تک 2 میچ بارش کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے۔ اس کے علاوہ کچھ میچوں میں بارش کی وجہ سے اوورز محدود کرنے پڑے۔ بارش ہمیشہ سے ہی ایک لاٹری کی صورتحال پیدا کردیتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ ٹورنامنٹ کے اگلے مرحلے میں ٹیموں کی رسائی کا فیصلہ بارش کے اثرات کے بجائے ٹیموں کی کارکردگی کی بنیاد پر ہو۔
خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔