دنیا کی حکمران عورتیں
اگرچہ ماضی کے مقابلے میں اب دنیا بھر میں خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع زیادہ میسر ہیں اور اب خواتین سائنس سے لے کر سیاست، شوبز سے لے کر حکومت، صحت سے لے کر کھیل کے میدان تک اور مذہب سے لے کر تکنیکی شعبہ جات میں مرد کے ساتھ کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔
تاہم اب بھی دنیا کے تمام شعبہ جات میں خواتین کی نمائندگی مرد حضرات سے کم ہے، اگرچہ آبادی میں خواتین مردوں سے تھوڑی سے کم ہیں مگر مواقع ملنے کے حوالے سے دیکھا جائے تو خواتین اب بھی مرد حضرات سے بہت ہی پیچھے ہیں۔
اقوام متحدہ (یو این) کے خواتین سے متعلق ادارے ’یو این وویمن کے مطابق اس وقت دنیا بھر کے پارلیمنٹس میں صرف 24 فیصد خواتین ہیں اور خواتین کی یہ تعداد 25 سال قبل سے تھوڑی سی زیادہ ہے۔
یو این وویمن کے مطابق فروری 2019 تک دنیا بھر کے پارلیمنٹس میں 24 اعشاریہ 3 فیصد خواتین موجود تھیں جو کہ 1995 کے مقابلے 11 اعشاریہ زیادہ ہے۔
جون 2019 تک دنیا بھر میں صرف 23 ایسے ممالک اور ریاستیں ایسی تھیں جن کی حکومتوں یا ریاستوں کی سربراہی خواتین کے پاس تھی تاہم مارچ 2020 کے پہلے ہفتے تک اس تعداد میں کچھ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ فروری 2019 تک دنیا کے 27 ممالک کے پارلیمنٹ ایسے تھے جہاں خواتین کی نمائندگی 10 فیصد سے بھی کم تھی، دنیا میں افریقی ملک روانڈا وہ واحد ملک ہے جہاں پر خواتین سب سے زیادہ یعنی 67 سے 68 فیصد پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اور وہاں سب سے زیادہ خواتین حکومتی وزارتوں پر براجمان ہیں۔
خواتین کے خلاف تشدد، انہیں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنائے جانے اور انہیں مرد حضرات کے مقابلے آگے بڑھنے کے مواقع کم دینے کے معاملات اپنی جگہ لیکن یہ بھی دل خراش حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں بمشکل 32 ممالک یا ریاستیں ہی ایسی ہیں جن کی حکومتی و ریاستی معاملات خواتین کے پاس ہیں۔
دنیا کے 250 کے قریب ممالک اور آزاد و خود مختار ریاستوں و جزائر میں اس وقت زیادہ تر مرد حضرات ہی ریاست و حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان ہیں اور بمشکل 32 ممالک یا خود مختار ریاستیں و علاقے ایسے ہیں، جہاں اعلیٰ ترین عہدوں یعنی صدر اور وزیر اعظم کی نشست پر خواتین براجمان ہیں۔
حیران کن طور پر دنیا کے متعدد ممالک ایسے بھی ہیں، جن کی کئی صدیوں پر محیط تاریخ میں آج تک کوئی بھی خاتون صدر یا وزیر اعظم کے عہدے تک نہیں پہنچ سکی۔
ایسے ممالک میں امریکا سمیت کئی ایسے ممالک بھی آجاتے ہیں، جو خود کو جمہوریت و سیاست کے چیمپئن کہتے ہیں۔
اسی طرح کئی ممالک ایسے بھی ہیں، جہاں خواتین کو ریاست کے دیگر اعلیٰ عہدوں یعنی فوج یا انصاف کے اداروں کی سربراہی بھی نہیں دی گئی۔
اس سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ دنیا کے سب سے اہم، خود مختار، رول ماڈل اور بڑے ادارے اقوام متحدہ (یو این) کی سیکریٹری شپ بھی گزشتہ 7 دہائیوں سے کسی خاتون کو نہیں سونپی گئی۔
پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر خواتین 3 سے 4 دہائیاں قبل ہی براجمان ہوچکی تھیں۔
تاہم متعدد ممالک ایسے ہیں، جہاں آج تک خواتین کو حکومت و ریاست کے اعلیٰ عہدوں کے لیے نامزد ہی نہیں کیا گیا۔
درج ذیل خواتین اس وقت حکومت و ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان ہیں۔
برطانیہ
ملکہ
ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوئم کو اگرچہ حکومت کا کوئی عہدہ حاصل نہیں، تاہم انہیں ریاست کے علامتی سربراہ کا اعزاز حاصل ہے۔
ایلزبتھ دوئم نہ صرف برطانیہ کی ملکہ بلکہ دولت مشترکہ قلمرو ممالک کی بھی آئینی ملکہ و علامتی سربراہ ہیں۔
انہیں ملکہ برطانیہ کے عہدے پر طویل عرصے تک خدمات سر انجام دینے کا اعزاز بھی حاصل ہیں، وہ 1926 میں پیدا ہوئیں اور 1953 کو ملکہ بنیں اور اب تک اسی عہدے پر براجمان ہیں۔
فن لینڈ
وزیر اعظم
یورپی ممالک ناروے اور سویڈن کے پڑوسی ملک فن لینڈ میں دسمبر 2019 میں وزارت عظمیٰ پر براجمان ہونے والی 34 سالہ سیاستدان سانا مارین دنیا کی پہلی کم عمر ترین وزیر اعظم بنی تھیں۔
سانا مارین سے قبل بھی فن لینڈ میں دو خواتین وزیر اعظم رہ چکی تھیں، تاہم وہ وہاں کی نوجوان ترین وزیر اعظم بنیں۔
سانا مارین وزیر اعظم بننے سے قبل وزیر ٹرانسپورٹ کی خدمات سر انجام دے رہی تھیں اور وہ 2015 میں پہلی بار 30 سال کی عمر میں رکن اسمبلی بنی تھیں۔
سانا مارین کی پیدائش متنازع جنسی رجحانات رکھنے والے جوڑے کے ہاں ہوئی تھی اور ان کی پرورش ان کی والدہ نے کی تھیں، وہ ہم جنس پرست جوڑے کے ہاں پیدا ہوئی تھیں اور وہ اپنے خاندان کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
سانا مارین ایک بچے کی والدہ ہیں اور وہ اپنے دیرینہ دوست کے ساتھ رہتی ہیں جن سے انہیں ایک بچہ بھی ہے۔
نیوزی لینڈ
وزیر اعظم
37 سالہ جیسنڈا ایرڈرن نیوزی لینڈ کی پہلی نوجوان ترین وزیراعظم ہیں، جب کہ وہ گزشتہ 150 سال میں اس عہدے پر براجمان ہونے والی تیسری خاتون بھی ہیں۔
جیسنڈا ایرڈن 2017 سے وزیر اعظم ہیں، وہ وزارت عظمیٰ پر رہتے ہوئے ایک اور منفرد کام کرنے جا رہی ہیں، وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظیر بھٹو کے بعد دوران وزارت بچے کو جنم دینے والی دوسری وزیراعظم ہیں، بینظیر بھٹو نے 1990 میں وزارت عظمیٰ کے دوران بچے کو جنم دیا تھا۔
جیسنڈا ایرڈن کے ہاں 21 جون 2018 کو بیٹی کی پیدائش ہوئی، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی بیٹی اسی دن پیدا ہوئی، جس دن بینظیر بھٹو کا جنم دن ہوا تھا۔
جیسنڈا ایرڈرن نے بچی کی پیدائش کے وقت 6 ہفتوں کی چھٹیاں لی تھیں اور وہ بیٹی کی پیدائش کے ساتویں ہفتے ہی واپس کام پر آگئی تھیں۔
جیسنڈا ایرڈرن ستمبر 2018 میں اپنی 3ماہ کی بیٹی کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی شریک ہوئی تھیں۔
گورنر جنرل
64 سالہ پیستی ریڈی نیوزی لینڈ کی 21ویں گورنر جنرل ہیں ، یہ عہدہ اگرچہ حکومتی نہیں تاہم یہ مشترکہ ممالک قلمرو میں ایک علامتی ریاستی عہدے کی اہمیت رکھتا ہے۔
اس عہدے پر تقرری ملک کا وزیر اعظم کرتا ہے اور اس عہدے پر براجمان شخص ایک طرح سے ملکہ برطانیہ کے معاملات دیکھنے کے لیے تعینات کیا جاتا ہے۔
اس طرح کا عہدہ دوسرے دولت مشترکہ قلمرو ممالک میں بھی ہے۔
بیلجیم
وزیر اعظم
یورپی ملک بیلجیم میں اکتوبر 2019 میں پہلی بار ایک خاتون وزیر اعظم حکومت کے اعلیٰ عہدے پر براجمان ہوئیں، 45 سالہ صوفی ولمیس سیاست سے قبل بینکار تھیں اور وہ ابتدائی طور پر کیئر ٹیکر حکومتی سیٹ اپ کا حصہ بنیں تاہم بعد ازاں انہوں نے سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے مستقبل حکومت بنانے کے مذاکرات کا آغاز کیا۔
وہ پہلی بار 25 سال کی عمر میں مقامی حکومت میں کونسلر منتخب ہوئی تھیں اور بعد ازاں انہوں نے قومی سیاست میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی ملک کے اہم سیاستدانوں میں شمار ہونے لگیں۔
جرمنی
چانسلر
63 سالہ اینجلا مرکل یورپ کے اہم ترین ملک جرمنی کی چانسلر یعنی حکومت و ریاست کی سربراہ ہیں، یہاں یہ عہدہ دیگر ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کا متبادل ہے۔
اینجلا مرکل گزشتہ 14 سال سے جرمنی کی چانسلر ہیں، وہ پہلی مرتبہ اس عہدے پر 2005 اور آخری مرتبہ اکتوبر 2017 میں فائز ہوئی تھیں اور قانون کے مطابق وہ زیادہ سے زیادہ 2022 تک اس عہدے پر رہ سکتی ہیں۔
اینجلا مرکل کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر ہیں، وہ سیاسی پارٹی ’کرسچین ڈیموکریٹک یونین‘ (سی ڈی یو) کی سربراہ بھی ہیں۔
اینجلا مرکل پہلی بار 1991ء میں وفاقی جرمن پارلیمان کی رکن منتخب ہوئیں، تب سے اب تک وہ 7 بار رکن بن چکی ہیں جب کہ وہ وزیر برائے خواتین و نوجوانان اور وزیر برائے ماحولیات و نیوکلئیر سیفٹی بھی رہ چکی ہیں۔
وہ پہلی مرتبہ 1998 میں کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی سیکریٹری جنرل مقرر ہوئیں، 2000ء میں قائد حزب اختلاف بنیں اور 2005 میں پہلی بار چانسلر بنیں اور اب تک وہ 4 مرتبہ اس عہدے کے لیے منتخب ہوچکی ہیں۔
اینجلا مرکل کو دنیا کے بااثر ترین سیاستدانوں اور حکمرانوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے، وہ امریکا سمیت روس کے ساتھ بھی بہتر تعلقات رکھ کر چلنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔
بنگلہ دیش
وزیر اعظم
70 سالہ شیخ حسینہ کو جنوبی ایشیا کی خواتین میں اہم اور منفرد اعزاز حاصل ہے، کیونکہ وہ چوتھی مرتبہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بنی ہیں۔
بنگلہ دیش عوامی لیگ نامی پارٹی سے تعلق رکھنے والی شیخ حسینہ واجد چوتھی مرتبہ 2018 میں وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔
ان کا شمار بنگلہ دیش کے مقبول ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے، تاہم حالیہ حکومت میں ان کی جانب سے کیے گئے کئی متنازع فیصلوں کے باعث انہیں سخت تنقید کا سامنا ہے، ان پر سیاسی مخالفین کو قید و سزائیں دینے کا الزام ہے۔
شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمٰن کی صاحبزادی ہیں، وہ پہلی مرتبہ 1986 میں رکن اسمبلی بنیں۔
حسینہ واجد سیاست کے آغاز سے 2006 تک بنگلہ دیش کی اسمبلی میں نہ صرف قائد حزب اختلاف رہیں بلکہ وہ قائد ایوان بھی ہیں۔
سوڈان
خود مختار کونسل (ریاستی سربراہ - صدر)
افریقی ملک سوڈان میں اپریل 2019 میں تین دہائیوں بعد حکومت کی تبدیلی ہوئی اور شدید بغاوت کے بعد عمر البشیر کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، جس کے بعد سوڈان میں کئی ہفتوں تک کشیدگی رہی مگر بعد ازاں فوج اور سیاستدانوں نے کشیدگی کو حکم کرتے ہوئے پہلی بار منفرد طرز کا حکومتی سیٹ اپ تشکیل دیا۔
سوڈان کی فوجی و سیاسی قیادت نے اگست 2019 میں حکومتی معاملات چلانے کے لیے 11 رکنی خودمختار کونسل تشکیل دی جس میں 6 فوجی جب کہ 5 سول و سیاسی ارکان شامل کیے گئے اور اس کونسل میں 2 خواتین کو بھی شامل کیا گیا۔
سوڈانی خودمختار کونسل کی ارکان خواتین میں سینیئر سیاستدان عائشہ موسی السعید اور راجا نکولا کو شامل کیا گیا، دونوں خواتین ملک میں تعلیم، خواتین کی سماجی ترقی اور سیاسی حوالے سے اہم مقام رکھتی ہیں۔
بولیویا
صدر
جنوبی امریکی ملک بولیویا میں نومبر 2019 میں طویل عرصے تک صدر رہنے والے جان ایوو مورالس کی جانب سے عہدہ چھوڑے جانے کے بعد 52 سالہ جانین آنیز نے عہدہ صدارت سنبھالا۔
جانین آنیز نگراں صدر ہیں، وہ اس سے قبل سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر سمیت دیگر اعلیٰ سیاسی عہدوں پر خدمات سر انجام دے چکی ہیں، انہیں روشن خیال اور سیکولر سیاستدان تسلیم کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی انہیں خواتین کے حقوق کی چیمپیئن بھی مانا جاتا ہے۔
استونیا
صدر
49 سالہ کیرسٹی کالجلیڈ یورپی ملک استونیا کی نوجوان ترین اور پہلی خاتون صدر ہیں، وہ اس ملک کی مجموعی طور پر پانچویں سربراہ ہیں۔
کیرسٹی کالجلیڈ سربراہ کے عہدے پر براجمان ہونے سے قبل ملک کی سیاست میں اہم کارنامے سر انجام دے چکی ہیں۔
اروبا
وزیر اعظم
بحیرہ کیریبین کا جزیرہ نما خود مختار ملک اروبا بھی نیدر لینڈ کے زیر انتظام ہے اور اس کا شمار چھوٹے ترین جزائر میں ہوتا ہے۔
52 سالہ ایولین ویور کریوس کو اس جزیرے کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہے، وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان ہونے سے قبل بھی متحرک سیاستدان تھیں۔
سنٹ مارٹن
وزیر اعظم
بحیرہ کیریبین میں واقع جزیرہ نما ملک سنٹ مارٹن نیدرلینڈ کے زیر انتظام خود مختار ملک ہے اور 45 سالہ لیونا مارلن رومیو اس کی پہلی نوجوان خاتون وزیر اعظم ہیں۔
لیونا مارلن رومیو سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک معاہدے کے تحت پارلیمنٹ سے وزیر اعظم منتخب ہوئیں، وہ اس سے قبل بھی سنٹ مارٹن کی رکن اسمبلی منتخب ہوتی رہی ہیں۔
بارباڈوس
وزیر اعظم
بارباڈوس میں بھی پہلی بار ایک خاتون وزیر اعظم بنی ہیں، تاہم وہاں خاتون وزیر اعظم سے قبل ایک خاتون صدر بھی رہ چکی ہیں۔
بارباڈوس کی وزیر اعظم 54 سالہ میا موٹلی اس سے قبل اپوزیشن لیڈر رہنے سمیت دیگر حکومتی عہدوں پر بھی رہی ہیں اور انہیں ملک کے منجھے ہوئے سیاستدانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
گورنر جنرل
قانون دان، سیاستدان 71 سالہ سیندرا میسن بارباڈوس کی گورنر جنرل ہیں، یہ عہدہ کئی ممالک میں علامتی اہمیت رکھتا ہے، وہ 2020 سے قبل بھی اسی عہدے پر براجمان رہ چکی ہیں۔
سوئٹزرلینڈ
ارکان فیڈریشن کونسل آف سوئٹزرلینڈ (وزیر اعظم یا صدر کے برابر)
سوئٹزرلینڈ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں حکومت کا سربراہ کوئی ایک فرد نہیں ہوتا بلکہ وہاں نصف درجن سے زائد شخصیات حکومت کی سربراہ ہوتی ہیں، حکومت چلانے والی ان شخصیات کو ارکان فیڈریشن کونسل کہا جاتا ہے اور ان کی تعداد 7 ہوتی ہے جب کہ ایک 8 واں فرد مذکورہ کونسل کا سربراہ بھی ہوتا ہے جس کا حکومت چلانے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ووئلا احمرڈ
کرسچین ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی آف سوئٹزرلینڈ کی رہنما 56 سالہ ووئلا احمرڈ دسمبر 2018 میں سوئٹزرلینڈ کی فیڈریشن آف کونسل کی رکن بنیں اور انہوں نے یکم جنوری 2019 سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
کیرن کیلر سوٹر
دی لبرل پارٹی پارٹی سے تعلق رکھنے والی 55 سالہ کیرن کیلر سوٹر بھی دسمبر 2018 میں سوئٹزرلینڈ کی فیڈریشن آف کونسل کی رکن بنیں اور نئے سال سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
54 سالہ ڈورس لیتھرڈ کا تعلق کرسچین ڈیموکریٹک سوشل پارٹی جب کہ 57 سالہ سیمونیتا سوماروگا کا تعلق سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف سوئٹزرلینڈ سے ہے، ڈورس لیتھرڈ اس عہدے پر دوسری مرتبہ جب کہ سیمونیتا سوماروگا اس عہدے پر پہلی مرتبہ براجمان ہوئی ہیں۔
ایتھوپیا
صدر
اقوام متحدہ میں کئی سال تک خدمات سر انجام دینے والی 69 سالہ سہالے ورک زیوڈے کو افریقی ملک ایتھوپیا کی پہلی خاتون صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
سہالے ورک نے جہاں کئی سال تک اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں میں خدمات سر انجام دیں، وہیں وہ ایتھوپیا کی سفیر بھی رہ چکی ہیں اور انہیں سفارت کاری کی ماہر سمجھا جاتا ہے۔
جارجیا
صدر
فرانسیسی نژاد جارجیائی سیاستدان 67 سالہ سالومے زور ابیشویلے کو یورپی ملک جارجیا کی پہلی خاتون صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
سالومے زور دسمبر 2018 میں صدر منتخب ہوئیں، ان کا تعلق جارجیئن ڈریم پارٹی سے تھا اور انہوں نے 11 جماعتوں کے اتحادی امیدواروں کو بھی شکست دی۔
صدر منتخب ہونے سے قبل وہ اقوام متحدہ میں بھی خدمات سر انجام دے چکی ہیں جب کہ وہ فرانس میں جارجیا کی سفیر رہنے سمیت ملک کی پہلی خاتون وزیر خارجہ بھی رہ چکی ہیں۔
ناروے
وزیر اعظم
57 سالہ ایرینا سولبرگ حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان ہونے سے قبل بھی حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں بشمول وزارتوں پر خدمات سر انجام دے چکی ہیں۔
وہ 2013 سے ناروے کی وزیر اعظم ہیں، ساتھ ہی وہ سیاسی جماعت ’کنزرویٹو پارٹی‘ کی سربراہ بھی ہیں۔
میانمار
سربراہ حکومت
72 سالہ آنگ سانگ سوچی میانمار کی حکمران جماعت کی سربراہ ہیں، انہیں حکومت کی سربراہی کے لیے ایک خصوصی عہدے کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، وہ میانمار کی پہلی اسٹیٹ کونسلر خاتون ہیں، یہ عہدہ وزیر اعظم کے برابر ہوتا ہے۔
اگرچہ آنگ سانگ سوچی براہ راست حکومتی پالیسیوں کی ذمہ دار نہیں ہیں، تاہم یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ہی میانمار حکومت کی اہم پالیسی ساز ہیں۔
ان پر میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کی وجہ سے بھی تنقید کی جاتی ہے۔
نیپال
صدر
56 سالہ بدیا دیوی بھنڈاری مجموعی طور پر نیپال کی تاریخ کی دوسری خاتون جب کہ جمہوری نیپال کی پہلی خاتون صدر ہیں۔
بدیا دیوی بھنڈاری کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آف نیپال سے ہے، وہ صدر بننے سے قبل وزیر دفاع سمیت دیگر عہدوں پر بھی براجمان رہ چکی ہیں۔
سربیا
وزیراعظم
42 سالہ اینا برنابیچ یورپی ملک سربیا کی نوجوان ترین اور پہلی خاتون ایل جی بی ٹی وزیر اعظم ہیں، وہ اس سے قبل بھی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکی ہیں۔
اینا برنابیچ کو ہم جنس پرستی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
سنگاپور
صدر
63 سالہ حلیمہ یعقوب نہ صرف سنگاپور کی پہلی خاتون صدر بلکہ پہلی مسلمان صدر بھی ہیں، وہ اس سے قبل سنگاپور کی اسمبلی کی اسپیکر رہنے سمیت اہم سرکاری عہدوں پر براجمان رہیں۔
ان کا تعلق سیاسی جماعت ’پیپلز ایکشن پارٹی‘ سے ہے۔
نمبییا
وزیر اعظم
50 سالہ سارہ کگینگلوا جنوبی افریقی ملک نمبیبا کی مجموعی طور پر چوتھی جب کہ پہلی خاتون وزیر اعظم ہیں، انہوں نے 2015 میں یہ عہدہ سنبھالا۔
ساؤتھ ویسٹ افریقہ پیپلز آرگنائزیشن نامی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی سارہ کگینگلوا اس سے قبل وزیر خزانہ سمیت دیگر وزارتوں کے قلمدان بھی سنبھال چکی ہیں۔
ٹرینیڈاڈ ٹوبیگو
صدر
60 سالہ پاؤلا مائی ویکیس جو ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو کی اعلیٰ بھیجج ہیں، وہ ملک کی پہلی بھی صدر ہیں۔
پاؤلا مائی ویکیس سیاسی جماعتوں کی مفاہمت اور جوڑ توڑ کے بعد گزشتہ برس خواتین کے عالمی دن کے موقع پر صدر بنیں۔
تائیوان
تسائی انگ ون صدر
61 سالہ تسائی انگ ون کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ خود مختار مگر چین کی زیر تسلط ریاست تائیوان کی پہلی خاتون صدر ہیں۔
تسائی انگ ون کی پارٹی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی نے حیران کن طور پر 2016 کے عام انتخابات میں حکمران جماعت کو شکست دی، جس کے بعد وہ ملک کی پہلی خاتون صدر بنیں۔
تسائی انگ ون ریاست و حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان ہونے سے قبل متعدد سرکاری عہدوں پر فائز رہ چکی ہیں۔
سلواکیہ
صدر
یورپی ملک سلواکیہ کے عوام نے بھی سال 2019 کے اپریل مہینے میں تاریخ رقم کرتے ہوئے پہلی بار ایک خاتون کو صدارت کے لیے منتخب کیا۔
معروف سیاستدان 46 سالہ زوزانے کیپتوا نے اپریل میں ہونے والے انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرتے ہوئے میدان مارا اور انہوں نے جون میں صدر کی ذمہ داریاں سنبھالیں، وہ سیاست میں متحرک کردار ادا کرنے کے علاوہ ماحولیات اور انسانی حقوق کے لیے متحرک رہی ہیں.
آئس لینڈ
وزیر اعظم
42 کیٹرن جیکوبوسڈوٹی کی نوجوان ترین وزیر اعظم ہیں، وہ اس عہدے پر براجمان ہونے سے قبل کئی وزارتوں کے قلمدان سنبھال چکی ہیں۔
وہ 2003 میں صحافت سے سیاست میں داخل ہوئی تھیں اور جلد ہی انہوں نے سیاست میں اپنا مقام بنالیا۔
ڈنمارک
وزیر اعظم
یورپی ملک ڈنمارک کی 42 سالہ میٹ فریڈرکسن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کی سب سے کم عمر ترین وزیر اعظم ہیں، اگرچہ ان سے قبل بھی خواتین وزیر اعظم رہ چکی ہیں تاہم انہیں نئی نسل کی ترجمان وزیر اعظم کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
میٹ فریڈرکسن نے کم عمری میں سیاست کا آغاز کیا تھا اور وہ پہلی بار 2001 میں 23 سال کی عمر میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئی تھیں۔
سان مرینو
کیپٹن ریجنٹ (سربراہ ریاست - صدر)
جزیرہ نما یورپی ملک سان مرینو جس کا شمار دنیا کی قدیم ترین جمہوری ممالک میں بھی ہوتا ہے، وہاں ریاست کے سربراہ کے ’کیپٹن ریجنٹ‘نامی عہدے کے لیے ہر چھٹے ماہ 2 افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے اور 2019 کے آخری اور 2020 کے اوائلی مہینوں کے لیے ایک خاتون کو بھی منتخب کیا گیا۔
اس عہدے کے لیے 58 سالہ ماریلا مرینو کو منتخب کیا گیا، تاہم وہ اس عہدے پر براجمان ہونے والی سان مرینو کی پہلی خاتون نہیں تھیں، ان سے قبل بھی اسی عہدے پر خواتین کو منتخب کیا جاچکا ہے۔
کینیڈا
گورنر جنرل
53 سالہ جولی پائتے کینیڈا کی 29 ویں گورنر جنرل ہیں، یہ عہدہ اگرچہ حکومتی نہیں تاہم یہ مشترکہ ممالک قلمرو میں ایک علامتی ریاستی عہدے کی اہمیت رکھتا ہے۔
اس عہدے پر تقرری ملک کا وزیر اعظم کرتا ہے اور اس عہدے پر براجمان شخص ایک طرح سے ملکہ برطانیہ کے معاملات دیکھنے کے لیے تعینات کیا جاتا ہے۔
اس طرح کا عہدہ دوسرے دولت مشترکہ کے ممالک میں بھی ہے۔
کیورا ساؤ
گورنر جنرل
69 سالہ لوشیا جارج ووٹ بحریہ کیریبین کے جزیرہ نما ملک کیورا ساؤ کی گورنر ہیں، یہ عہدہ ریاستی سربراہ کا عہدہ ہے۔
لوشیا جارج ووٹ گورنر بننے سے قبل بھی کیورا ساؤ کے اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تعینات رہی ہیں۔
گریناڈا
گورنر جنرل
گرینیڈا کیریبین جزائر کا ایک جزیرہ نما ملک ہے، جس پر برطانوی سلطنت کا قبضہ تھا، 65 سالہ ڈیم سیسل اس ملک کی پہلی گورنر جنرل ہے، اس سے قبل وہ ملک کے اہم سیاسی و حکومتی عہدوں پر تعینات رہ چکی ہیں۔
سینٹ ونسینٹ و گریناڈائنز
گورنر جنرل
جزائر پر مشتمل کیریبیئن ملک سینٹ ونسینٹ و گریناڈائنز کی 66 سالہ سوزان ڈگن اگست 2019 میں اپنے ملک کی پہلی خاتون گورنر جنرل بنیں، اس سے قبل وہ مختلف حکومتی و سیاسی عہدوں پر خدمات سر انجام دے چکی تھیں اور انہیں خواتین کی اہم سیاسی رہنماؤں میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔