کورونا وائرس سے متعلق پاکستان میں پھیلنے والی افواہیں
دسمبر 2019 میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک چین سے شروع ہونے والا کورونا وائرس 3 مارچ تک دنیا کے 75 سے زائد ممالک تک پھیل چکا تھا اور اس سے دنیا کے 91 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوچکے تھے۔
اس وائرس سے دنیا بھر میں 3 مارچ تک 3 ہزار 120 تک ہلاکتیں ہو چکی تھیں اور متاثر ہونے والے مریضوں سے 48 ہزار مریض صحت یاب بھی ہو چکے تھے ۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا کے تمام ممالک میں سخت ترین حفاظتی اقدامات کیے گئے۔
جہاں پاکستان کے صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان میں کورونا وائرس کے پیش نظر اسکولوں کو بند کردیا گیا، وہیں چین نے تو اس وائرس کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے شہروں کے اہم مراکز کو ہی بند کردیا تھا۔
چین نے جنوری 2020 کے آغاز سے ہی شہروں کی مارکیٹیں، عوامی مقامات، ہوٹل، بازاریں، ٹرانسپورٹ کے اڈے اور تعلیمی ادارے بھی بند کردیے تھے۔
اسی طرح اٹلی میں بھی جہاں تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا، وہیں کھیل کے مقابلے بھی منسوخ کردیے گئے جب کہ وہاں کے مارکیٹ اور بازاریں بھی لوگوں سے خالی ہونے لگیں۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کے بارے میں وہ انکشافات اور تفصیلات جنہیں جاننا بہت ضروری ہے
کورونا وائرس کے پیش نظر چین سے لے کر سنگاپور، جنوبی کوریا سے لے کر جرمنی تک میں موجود ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنے دفاتر کو عارضی طور پر بند کردیا جب کہ کئی اداروں نے اپنے ملازمین کی حاضری کم کردی تاکہ دفتر میں کم سے کم لوگ موجود ہوں اور بیماریاں ایک سے دوسرے شخص میں منتقل نہ ہوں۔
اسی طرح برطانیہ، فرانس اور امریکا سمیت دنیا کی بڑے بڑے معاشی ممالک میں بھی کورونا وائرس کی وجہ سے کمپنیاں اور کاروباری مارکیٹیں بند کردی گئیں تاکہ کسی بھی جگہ کم سے کم لوگ موجود ہوں۔
پاکستان کے صوبہ سبندھ اور صوبہ بلوچستان میں بھی اسکولوں کو بند کرکے سوشل میڈیا پر یہ مہم چلائی جا رہی ہے کہ کسی بھی جگہ کم سے کم لوگ جمع ہوں تاکہ وائرل بیماری کو پھیلنے سے روکا جائے۔
اس ضمن میں کچھ نجی اداروں کی جانب سے اپنے دفتر میں کم سے کم ملازمین کی حاضری کے لیے بھی اقدامات اٹھائے گئے۔
تاہم ان تمام حفاظتی انتظامات کی وجہ سے لوگوں میں کچھ خوف بھی پھیل رہا ہے اور لوگ کورونا وائرس سے متعلق ملنے والی ہر معلومات پر یقین کرکے ذہنی دباؤ کا شکار بھی بن رہے ہیں۔
کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے سخت احتیاطی تدابیر کے اقدام اپنی جگہ لیکن اس وائرس کے حوالے سے پاکستان میں بہت ساری غلط معلومات بھی تیزی سے پھیل رہی ہے اور ایسی غلط معلومات سب سے زیادہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیل رہی ہے۔
مزید پڑھیں : کیا گرم موسم نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روک دے گا؟
سوشل میڈیا پر پھیلنے والی معلومات پڑھ کر اندازا ہوتا ہے کہ کورونا وائرس ایک انتہائی مہلک اور جان لیوا وائرس ہے جس سے بچنا ممکن نہیں لیکن کراچی کے معروف انڈس ہسپتال کے شعبہ انفیکشس ڈیزیز ( Infectious Diseases) کی سربراہ اور ماہر وبائی امراض ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کہتی ہیں کہ ’کورونا سے زیادہ انفلوئنزا وائرس خطرناک ہے‘۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے بتایا کہ کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والے مریض کے صحت یاب ہونے کے 95 سے 98 فیصد امکانات ہوتے ہیں اور اگر بروقت تشخیص ہوجائے اور احتیاط سے کام لیا جائے تو نتائج اور بھی زیادہ بہتر ملیں گے۔
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے چین نے جلد بازی سے کام لے کر دنیا میں خوف پھیلایا کیوں کہ چین نے کچھ افراد کے متاثر ہونے کے بعد ہی اپنے شہروں کے تجارتی مراکز اور اہم مقامات کو بند کرنا شروع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وائرل بیماریوں سے بچنے کے لیے لوگوں کا کسی بھی جگہ کم سے کم جمع ہونا ہی سب سے بہتر اور محفوظ طریقہ ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اداروں اور مقامات کو بند کرکے لوگوں کو ایک ہی جگہ محدود کردیں اور لوگوں میں خوف پھیلائیں۔
ماہر وبائی امراض نے اس بات پر بھی حیرانی کا اظہار کیا کہ چین سے سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں میڈیکل ارکان کو ایک مخصوص لباس میں بند ہوکر سڑکوں اور گاڑیوں سمیت گھروں اور جگہ جگہ اسپرے کرتے ہوئے دکھایا جا رہا ہے جو کہ غیر اہم ہے۔
انہوں نے دلیل دی کہ اگر کسی جگہ وائرس سے متاثرہ شخص گیا ہی نہیں یا کسی جگہ وائرس سے متاثر لوگوں کی موجودگی نہیں تو وہاں انتہائی خاص لباس میں جاکر اسپرے کرنے کا کیا مطلب ہے؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کے مطابق اگرچہ خاص لباس پہن کر اسپرے کرنے کا عمل چینی حکام کے لیے احتیاطی تدابیر میں شامل قدم ہوگا مگر درحقیقت وہ غیر اہم ہے اور اس سے دوسرے ممالک میں خوف بھی پھیل رہا ہے۔
ان کے مطابق آج تک کسی نے بھی کورونا وائرس سے خطرناک وائرس ’انفلوائنزا‘ سے حفاظت کے پیش نظر ایسا نہیں کیا۔
کورونا وائرس سے متعلق سوشل میڈیا پر پھیلنے والی معلومات کے مطابق ’کورونا وائرس‘ پاکستان کی گرمی میں ختم ہوجائے گا مگر ڈاکٹر نسیم صلاح الدین بتاتی ہیں کہ نہ صرف کورونا بلکہ تقریباً تمام پھیلنے والے امراض گرمیوں میں کم پھیلتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ابھی تک کورونا کے گرمیوں میں پھیلنے یا نہ پھیلنے کے حوالے سے کوئی تحقیق سامنے نہیں آ سکی، چونکہ یہ وائرس سردیوں میں چین سے پھیلا تھا اور ابھی تک یہ دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہا ہے جس سے یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ وائرس گرمیوں میں پھیلے گا یا نہیں لیکن انہوں نے بتایا کہ انفلوئنزا سمیت تقریباً پھیلنے والا ہر وائرس گرمیوں میں کم ہو جاتا ہے۔
انہوں نے گرمیوں میں وائرس کے نہ پھیلنے کے اسباب بتاتے ہوئے بتایا کہ چونکہ گرمیوں میں کمروں میں پنکھے چل رہے ہوتے ہیں اور کھڑکیاں اور دروازے بھی کھلے ہوتے ہیں جس وجہ سے اگر کسی کمرے میں بہت سارے لوگ موجود ہوں تو بھی ان کے بخارات آرام سے کمرے سے باہر نکل جاتے ہیں جس وجہ سے وہاں موجود لوگ محفوظ رہتے ہیں جس سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ گرمیوں میں وائرس کم ہوجاتے ہیں۔
ٹھنڈک یا ایئر کنڈیشنڈ (اے سی) میں بیٹھنے سے کورونا وائرس کے بڑھنے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ٹھنڈک انفلوئنزا سمیت دیگر مسائل کا سبب بھی بنتی ہے، اس وجہ سے عین ممکن ہے کہ اے سی میں بند کمرے میں بیٹھنے سے مسائل بڑھیں۔
انہوں نے بتایا کہ انفلوئنزا اور کورونا کی ابتدائی علامات تقریباً ایک جیسی ہی ہیں لیکن لوگ انفلوئنزا سے زیادہ کورونا سے ڈر رہے ہیں جب کہ کوئی بھی وائرل اور انفیکشس بیماری کم خطرناک نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا تھا کہ نزلہ، زکام، چھینکیں آنا، کھانسی اور سانس میں تکلیف اور بخار جیسی علامات ہی کورونا کی علامات ہیں تاہم لازمی نہیں کہ مذکورہ علامات والا شخص وائرس کا شکار ہو۔
انہوں نے دلیل دی کہ پاکستان کے تقریباً ہر گھر میں کوئی نہ کوئی نزلہ، زکام، الرجی، کھانسی اور بخار کا مریض ہوتا ہے اور یہ عام بیماریاں یا مسائل بھی ہیں جو بہت زیادہ افراد کو ہوتے ہیں، تو اس لیے یہ سمجھنا کہ مذکورہ علامات والا شخص کورونا کا شکار ہو سکتا ہے یہ خیال غلط ہے۔
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا تھا کہ نزلہ، زکام، کھانسی اور سانس میں تکلیف کے مسائل والے مریضوں کو اگرچہ احتیاط کرنا چاہیے تاہم انہیں ان علامات سے ڈرنے کٰی ضرورت نہیں اور وہ اپنے ذہن پر یہ بات سوار نہ کریں کہ وہ کورونا کا شکار ہوگئے۔
وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر کے مطابق پاکستان میں عام افراد کو بھی مستقل طور پر نزلہ و زکام کی شکایت رہتی ہے تو ایسے افراد کو یہ شبہ نہ ہو کہ وہ اس وائرس کے مریض ہیں۔
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے سوشل میڈیا پر کورونا وائرس سے متعلق پھیلنے والی غلط معلومات پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ماہرین امراض کی جانب سے عام افراد کو ہاتھوں کی صفائی کرنے، دوسروں سے ہاتھ نہ ملانے اور ماسک پہننے کے مشورے کو غلط سمجھا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان مشوروں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو شخص ان پر عمل نہیں کرے گا وہ کورونا وائرس کا شکار ہو جائے گا۔
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا تھا کہ صفائی رکھنا، احتیاط کرنا ہر بیماری سے محفوظ رکھتا ہے اور چونکہ کورونا وائرس بھی ایک وائرل بیماری ہی یعنی یہ بیماری ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے، اس لیے ماہرین لوگوں کو زیادہ سے زیادہ صفائی کرنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ کورونا وائرس اس وقت ہی ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہو سکتا ہے جب متاثرہ شخص دوسرے لوگوں سے ملے گا اور ان سے ملنے والے افراد احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرکے ان سے ملیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر ایک عام شخص جسے نزلہ و زکام ہو اور اسے کسی دوسرے شخص سے ملاقات کے دوران چھینک آجائے تو عین ممکن ہے کہ اگر چھینکنے والے شخص نے ماسک نہ پہن رکھا ہو تو اس کے منہ اور ناک سے نکلنے والے بخارات دوسرے شخص کے جسم تک چلے جائیں اور وہ بخارات اسے بھی متاثر کردیں، اسی لیے ہر پھیلنے والی بیماری سے بچنے کے لیے ماہرین لوگوں کو بار بار ہاتھ دھونے، ماسک پہننے اور لوگوں سے دور رہنے کی ہدایت کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وہ آسان طریقے جو کورونا وائرس کو آپ سے دور رکھیں
ماہر وبائی امراض کے مطابق ان ہدایات کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اگر کوئی بھی شخص بار بار ہاتھ نہیں دھوئے گا، ماسک نہیں پہنے گا یا لوگوں سے ملنے سے گریز نہیں کرے گا تو وہ کورونا وائرس کا شکار ہوجائے گا۔
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کے مطابق اگر کوئی بھی شخص ہر طرح سے صحت مند ہے، اسے کوئی نزلہ یا زکام نہیں اور وہ اپنے جیسے صحت مند لوگوں سے ملاقات کر رہا ہے اور یا اپنے جیسے کچھ افراد کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تو ڈرنے کی ضرورت نہیں اور ایسے افراد کو نہ ہی انتہائی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ماہرین نے صرف اُن افراد کو ہی ماسک پہننے، بار بار ہاتھ دھونے یا لوگوں سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے جن میں اس وائرس سے متاثر ہونے والی ابتدائی علامات موجود ہیں یا وہ کسی ایسے شخص سے مل رہے ہیں جس میں یہ علامات پائی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے سختی سے ان باتوں کو مسترد کیا کہ گوشت یا سبزی کھانے سے کورونا وائرس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گوشت اور سبزیوں کا کورونا وائرس کے پھیلاؤ یا اس کے امکانات بڑھانے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ماہرین نے لوگوں کو گوشت یا سبزی سے دور رہنے کے مشورے دہے ہیں۔
ماہر وبائی امراض کے مطابق ایسی افواہیں کم علمی کی بنیاد پر پھیلائی جا رہی ہیں۔
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے بتایا کہ وفاقی قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) نے پاکستان کے چند بڑے ہسپتالوں کو کورونا وائرس کے ٹیسٹ کرنے کی کٹس اور طریقہ کار فراہم کیے گئے ہیں اور اس وائرس کا ٹیسٹ ’ریئل ٹائم‘ (آر ٹی) ’پولیمرائز چین ری ایکشن‘ (پی آر سی) بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے ہوتا ہے، مذکورہ ٹیسٹ اور بھی وائرل اور وبائی بیماریوں کے لیے کیا جاتا ہے۔
ان کےمطابق کورونا کا ٹیسٹ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے کم سے کم 3 بڑے ہسپتالوں جن میں آغا خان، جناح ہسپتال اور ڈاؤ ہسپتال شامل ہیں، وہاں ہوتا ہے اور اس وائرس کا ٹیسٹ تقریباً 8 سے 10 ہزار روپے تک کا ہو سکتا ہے اور اس ٹیسٹ کے نتائج 6 سے 8 گھنٹوں میں آسکتے ہیں۔
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کے مطابق کورونا کے لیے ریئل ٹائم پی آر سی بلڈ ٹیسٹ ہر کسی کا نہیں کیا جانا چاہیے اور جن میں انتہائی شبہ ہو صرف ان افراد کا ہی ٹیسٹ کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا صحت یابی کے بعد بھی لوگ کورونا وائرس آگے پھیلا سکتے ہیں؟
ماہر وبائی امراض نے بتایا کہ مریض کے ٹیسٹ کی بنیاد پر کورونا وائرس کے شکار مریض کا علاج کیا جاتا ہے، تاہم عام طور مریض کو عام بخار، نزلہ و زکام کی دوائیاں دی جاتی ہیں اور اسے نگرانی میں رکھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کے ماہرین کو اندازا نہیں کہ کورونا وائرس کب تک چلے گا اور اس وقت اس کی کوئی ویکسین بھی موجود نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا علاج دوسری دوائیوں سے نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کورونا وائرس یوں ہی یا اس سے کم رفتار میں ایک سے ڈیڑھ سال تک چلا تو دنیا کی کوئی نہ کوئی میڈیکل کمپنی اس کی ویکسین تیار کر لے گی اور عین ممکن ہے کہ ابتدائی طور اس کی صرف عام ویکسین ایجاد کی جائے اور بعد ازاں اس کی اینٹی وائرل ویکسین تیار ہو۔
لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس sagarsuhindero@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔