اسلام آباد اننگز ٹاس جیتو اور مخالف کو بلے بازی کی دعوت دے دو۔ اس پی ایس ایل میں ٹیموں کو بڑا ہی سادہ سا فارمولا مل چکا ہے۔ خاص کر رات والے میچوں میں تو سارا دار و مدار ہی جیسے ٹاس پر آچکا ہے۔ اگرچہ یہ تھوڑا تکلیف دہ پہلو ہے تاہم منتظمین کے پاس اس کا کوئی معقول حل موجود نہیں۔
کراچی نے بھی آج یہی کیا اور ٹیم بغیر کسی تبدیلی کے میدان میں اتار دی۔ اسلام آباد نے رضوان حسین اور ڈیل اسٹین کو میدان میں اتارا، جبکہ عماد بٹ اور ڈیوڈ میلان کو جگہ خالی کرنا پڑی۔
کولن منرو خوش قسمت ہیں کہ انہیں مسلسل مواقع مل رہے ہیں حالانکہ ڈیوڈ میلان ان سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ تاہم 4 غیر ملکی کرکٹرز کی شرط والی تلوار کسی ایک پر تو چلنا ہی تھی۔
اس میچ میں کولن منرو ایک بار پھر ناکام ہوئے۔ پاکستان سپر لیگ میں اکثر بڑے ناموں کی طرح منرو بھی اب تک اپنی چمک نہیں دکھا سکے۔ اسلام آباد کو ان کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ لیوک رونکی اگرچہ بہت خطرناک بیٹسمین ہیں مگر اچھی باؤلنگ دیکھ کر انہوں نے اس میچ میں اپنا ہاتھ روکا اور شروع میں بہت احتیاط سے شاٹ لگاتے نظر آئے۔ انہوں نے اپنے مزاج کے برخلاف بُرے گیند کا انتظار کیا اسی لیے وہ ایک لمبی اننگز کھیلنے میں کامیاب بھی ہوگئے۔
رضوان حسین جنہیں پچھلے سیزن میں اسلام آباد نے ڈومیسٹک ٹی20 کی شاندار پرفارمنس کی بنیاد پر منتخب کیا تھا اور جب وہ اچھا نہ کھیل سکے تو بعد میں ڈراپ کردیا۔ لیکن اب ایک لمبے انتظار کے بعد انہیں موقع ملا اور انہوں نے نسبتاً عمدہ کھیل پیش کیا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جب وہ سیٹ ہونے کے بعد لمبی اننگ کھیلنے کی پوزیشن میں آئے تو انہوں نے اپنی وکٹ بڑے شاٹ کھیلنے کے چکر میں ضائع کردی۔ لیکن ایسا کرنا بھی ضروری تھا کیونکہ ایک اینڈ سے رونکی محتاط انداز میں کھیل رہے تھے، اس لیے کسی کو تو بڑے شاٹس کے لیے جانا ہی تھا۔
دراصل یہ عمر خان کی بہترین باؤلنگ کا کمال تھا جس نے انہیں اس غلطی پر اکسایا۔ پی ایس ایل سیزن 4 کے بہترین اسپنر عمر خان کو اس سیزن میں پہلی مرتبہ موقع پچھلے میچ میں ملا تھا، لیکن حیران کن طور پر کھلانے کے باوجود انہیں عماد وسیم نے باؤلنگ نہیں دی، اور وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ ملتان کے پاس زیادہ تر بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے بیٹسمین ہیں اور ہوا کا رخ بھی پریشان کررہا تھا اس لیے انہوں نے ایسا کیا، لیکن اس فیصلے پر تمام ہی حلقوں میں بہت زیادہ تنقید کی گئی تھی۔
لیکن اسلام آباد کے خلاف انہیں ٹیم میں جگہ بھی ملی اور باؤلنگ بھی دی گئی اور انہوں نے اپنی شاندار باؤلنگ سے کپتان عماد وسیم کو کیا ہی خوب جواب دیا۔ پہلے ہی اوور کی چوتھی گیند پر نا صرف وکٹ لی بلکہ وکٹ بھی بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے کی لی۔
عمر خان ٹی20 فارمیٹ کے دیگر باؤلرز سے یوں بھی مختلف ہیں کہ وہ تیز تیز گیند پھینک کر صرف رنز روکنے کی فکر نہیں کرتے بلکہ وکٹ کو پڑھ کر اپنی لینتھ، گیند کی رفتار اور لائن ایڈجسٹ کرتے ہیں۔ وہ دلیر ہیں اور بیٹسمین کو بڑے شاٹ کھیلنے پر اکساتے ہیں۔
ویسے کراچی کی انتظامیہ بھی بڑی دلچسپ ہے جس نے پہلے تو ایسے ہیرے کو باہر بٹھائے رکھا اور جب کھلایا تو درست استعمال نہیں کیا۔ ان کی جگہ جنہیں استعمال کیا گیا انہوں نے ہر میچ میں 40 سے زیادہ رنز دیے۔
اب جب ایک اور بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے کولن انگرام وکٹ پر آئے تو انہیں بھی عمر خان نے کھل کرنے کھیلنے نہیں دیا۔ یہ ابھی گزشتہ ہفتے کی تو بات ہے جب انگرام نے سمیت پٹیل کی شاندار دھلائی کی ہے۔ پھر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار عماد وسیم کے آخری اوور میں ایک چھکا اور چوکا لگاکر بخوبی کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اسی اوور کی آخری گیند پر آؤٹ ہوگئے۔
اننگز کے پہلے 9 اوورز تک اسلام آباد والے اننگ کی تعمیر میں ہی الجھے رہے۔ رونکی بھی محتاط تھے اور 10ویں اوور کے اختتام پر اسلام آباد کا اسکور 77 رنز تھا اور رونکی 29 گیندوں پر صرف 33 رنز ہی بناسکے تھے، لیکن پریشانی اس لیے نہیں تھی کہ اگر وہ آخر تک کھڑے رہے تو اس سست بیٹنگ کی کمی کو پورا کردیں گے، اور انہوں نے بہت حد تک یہ کر بھی لیا۔
شاداب خان ایک بار پھر اوپر آئے اور وہی کیا جو اس ٹورنامنٹ میں وہ کرتے آئے ہیں یعنی بہترین بلے بازی۔ شاداب کی بیٹنگ میں بہت بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ سوشل میڈیا پر شائقین واہ واہ کرتے نظر آئے تو کچھ نے تو امید ظاہر کی کہ اگر بہتری اسی طرح جاری رہی تو شاید شاداب کی صورت ہمیں ایک اور اسٹیون اسمتھ مل جائے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ خوش امیدی کی معراج ہی ہے۔ تاہم ان کی بیٹنگ کی افادیت خوب ہے۔
انہوں نے کریز پر آتے ہی اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا۔ انہوں نے جب تیز کھیلنا شروع کیا تو رونکی کی بھی کچھ ہمت بندھی۔ بس پھر دونوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ شاداب نے تو 4 شاندار چھکے بھی لگائے اور اس سیزن میں اپنی دوسری نصف سنچری بھی مکمل کی۔
اچھا یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جس وکٹ پر کراچی کے دونوں اسپنرز نے عمدہ باؤلنگ کی خاص کر عمر خان نے تو شاندار باؤلنگ کرتے ہوئے 4 اوورز میں صرف 24 رنز دیے وہیں فاسٹ باؤلرز کو خاصی مار پڑی اور سب نے 10 سے اوپر کے اکانومی ریٹ سے اسکور دیا۔
رونکی جنہوں نے اپنی پہلی 29 گیندوں پر 33 رنز بنائے تھے انہوں نے مزید 29 گیندیں کھیلیں اور 52 رنز کا اضافہ کیا۔ اس میچ میں انہوں نے اپنی سست ترین سپر لیگ نصف سنچری بنائی، لیکن انہوں نے 85 رنز بناکر ٹیم کو زبردست اسکور تک پہنچا دیا تھا۔ آخری 5 اوورز میں اسلام آباد نے 63 رنز بٹورے اور یوں 183 کا قابلِ قدر مجموعہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے۔
کراچی اننگز ایک خوبصورت شام میں کھیل کے شائقین کا تجسس عروج پر پہنچ چکا تھا اور سب کو بابر اعظم بمقابلہ ڈیل اسٹین ٹاکرے کا انتظار تھا۔ اسٹین نے گیند ہاتھوں میں تھامی تو بابر نان اسٹرائیکنگ اینڈ پر کھڑے تھے اور شائقین کے دلوں کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک مشکل سنگل لینے کے چکر میں بابر شاداب خان کی شاندار فیلڈنگ کا شکار بن گئے۔ گوکہ یہ اسلام آباد کا ہوم کراؤڈ تھا تاہم یہ ایک دل توڑنے والا منظر تھا۔
خیر یہ سب کھیل کا حصہ ہے۔ آخری 5 اوورز میں اسلام آباد نے میچ میں واپسی کی تھی اور بابر کی وکٹ نے انہیں مزید تقویت بخش دی۔ اب ان کے حوصلے بلند ہوچکے تھے اور جب ڈیل اسٹین نے پہلا ہی اوور میڈن پھینکا تو یوں لگا جیسے وہ پاکستان سپر لیگ میں اپنا ڈیبیو یادگار بنالیں گے۔
بابر اعظم جب بھی جلدی آؤٹ ہوجائیں تو کراچی والوں کے آدھے حوصلے جواب دے جاتے ہیں۔ لیکن شرجیل جیسے بابر کا صدمہ دل پر لے گئے اور بدلہ لینے پر اتر آئے۔ یاد رہے کہ اسلام آباد والے اس اننگ کا سب سے اچھا اوور پھینک چکے تھے اور پھر سب تبدیل ہونے لگا اور اسلام آباد کے باؤلرز نے جب شرجیل خان کو خراب لائن پر باؤلنگ کا سلسلہ شروع کیا تو انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھانا شروع کردیا۔ پھر چاہے وہ رومان رئیس ہوں، اسٹین، محمد موسی یا فہیم اشرف سب نے ہی اس میں حصہ ڈالا۔
یوں اسلام آباد نے بابر کی وکٹ سے جو فائدہ حاصل کیا تھا وہ شرجیل نے چند گیندوں میں ہی ضائع کردیا۔ آخرکار رونکی کے ایک شاندار کیچ نے انہیں واپسی کا راستہ دکھایا تاہم تب تک شرجیل 38 رنز بناچکے تھے جن میں 4 فلک شگاف چھکے بھی شامل تھے۔ شرجیل نے چاروں چھکے لیگ سائیڈ پر ہی مارے جس میں زیادہ کردار اسلام آباد کے باؤلرز کا تھا۔
الیکس ہیلز کا بلّا اس سیزن میں ابھی تک اپنے جوہر نہیں دکھا سکا تھا لیکن اس میچ میں انہوں نے بھی اسلام آباد کی باؤلنگ سے خوف استفادہ کیا اور سیزن میں اپنی پہلی نصف سنچری مکمل کی۔ 10 اوورز میں کراچی والے صرف 2 وکٹوں کے نقصان پر 98 رنز بنا چکے تھے۔
اگرچہ ایک طرف شاداب اچھی باؤلنگ کر رہے تھے لیکن وکٹ لینے سے محروم تھے۔ اس سیزن میں شاداب خان نے لاہور قلندرز کے خلاف ہی بہت عمدہ باؤلنگ کی، ورنہ پورے ایونٹ میں وہ بہت کارآمد باؤلر ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔
مزید کے لیے کلک کریں
اس اننگ میں جہاں ہیلز نے زبردست بیٹنگ کی وہیں کیمرون ڈیلپورٹ نے بھی اس سیزن میں 38 رنز پر مبنی اپنی سب سے بڑی اننگ کھیلی۔
ایک اہم بات جس پر بات ہونی چاہیے وہ یہ کہ شاداب خان نوجوان احمد صفی عبداللہ پر زیادہ بھروسہ نہیں کررہے حالانکہ وہ ایک بہترین باؤلر ہیں اور ان میں بھی عمر خان کی طرح وکٹ لینے کی صلاحیت نظر آتی ہے۔ اس میچ میں بھی شاداب انہیں 12ویں اوور میں اس وقت لے کر آئے جب دونوں بلے باز مکمل سیٹ ہوچکے تھے۔
پھر جب کسی صورت وکٹ نہیں مل رہی تھی تو شاداب نے دوسرے اینڈ سے تجربہ کار ڈیل اسٹین کو بلایا لیکن ڈیلپورٹ نے ایک زبردست چھکا لگاکر ان کا بھرپور استقبال کیا۔ لیکن اسٹین نے یہ قرض زیادہ دیر اپنے اوپر نہیں رکھا اور اگلی ہی گیند پر ڈیلپورٹ کو پویلین کی راہ دکھانے میں کامیاب ہوگئے۔
کراچی والوں نے یہاں وہی غلطی کی جو وہ اب تک کرتے ہیں یعنی اپنے بہترین بلے باز افتخار احمد کو پیچھے رکھنے والی غلطی، حالانکہ انہیں چڈویک والٹن سے پہلے آنا چاہیے۔
بہرحال ہیلز کو احمد صفی نے ایک شاندار گیند پر چکمہ دیا اور رونکی کے ہاتھوں اسٹمپ کروا دیا۔ یہاں رونکی کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی کہ لمبے عرصے سے مسابقتی کرکٹ سے باہر ہونے کے باوجود وہ فٹ ہیں۔ پہلے انہوں نے پورے 20 اوورز بیٹنگ کی اور اس کے بعد شاندار وکٹ کیپنگ بھی کی۔ ان کی فٹنس دیکھ کر یقیناً بہت سے نوجوانوں کو رشک آتا ہوگا۔
اچانک ہیلز اور ڈیلپورٹ کے چلے جانے کے بعد میچ میں تھوڑی سنسنی پیدا ہوئی۔ پھر جب وکٹ پر رکنے کا وقت تھا تو افتخار اور والٹن کے درمیان ایک تیز رن لینے کے لیے تذبذب کی کیفیت پیدا ہوئی اور افتخار رن آؤٹ ہوگئے۔ یہ وہ موقع تھا جب اسلام آباد پوری طرح میچ میں واپس آگیا تھا۔
اب کراچی کو جیتنے کے لیے 45 رنز چاہیے تھے مگر اس کی 5 وکٹیں گر چکی تھی۔ اس میچ میں بھی شاداب کی کپتانی نے اسلام آباد کو کافی نقصان پہنچایا۔ مطلب جس صفی نے پچھلے اوور میں ہیلز کی اہم وکٹ لی، شاداب نے انہیں ہٹانے کا فیصلہ کیا اور موسیٰ کو لے آئے۔ شاداب کا یہ فیصلہ عماد وسیم کو کچھ زیادہ ہی اچھا لگا کیونکہ انہوں نے موسیٰ کے اس اوور میں 2 چوکے لگاکر خود پر آنے والے دباؤ میں کسی حد تک کمی کردی۔
چونکہ اب اسلام آباد پر دباؤ بڑھ چکا تھا اس لیے شاداب کے پاس اسٹین کو واپس لانے کے علاوہ شاید کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ یہ اچھا فیصلہ یوں بھی تھا کہ اگر اس موقع پر اسٹین کا جادو چل جاتا تو کراچی کی ٹیم ڈھیر ہوجاتی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ انہوں نے اس اہم ترین اوور میں 10 رنز دیے اور یوں کراچی کو اب میچ جیتنے کے لیے 18 گیندوں پر محض 21 رنز درکار تھے۔
اب اسلام آباد کے لیے سب سے پریشان کن بات یہ تھی کہ ان کے اصل ہتھیار یعنی اسٹین کے اوور مکمل ہوچکے تھے، اس لیے انہیں رومان، موسیٰ اور فہیم اشرف پر ہی بھروسہ کرنا تھا۔ رومان رئیس نے اگرچہ ایک معقول اوور ضرور پھینکا تاہم یہاں وکٹ کی ضرورت تھی جو وہ نہیں لے سکے۔
عماد وسیم اس جیت کے لیے بہت زیادہ یکسو نظر آئے اور انہوں نے اپنی ہیمسٹرنگ میں کھچاؤ کے باوجود ہتھیار نہیں ڈالے اور ڈٹے رہے۔ اب جب کراچی کو آخری 12 گیندوں پر 14 رنز چاہیے تھے تو شاداب نے فہیم اشرف کو گیند تھما دی۔ اگر گزشتہ سیزن کی بات کریں تو فہیم اشرف نے یقیناً بہترین باؤلنگ کی تھی لیکن اس بار اب وہ کپتان کے لیے دردِ سر بن چکے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ اسلام آباد نے عماد بٹ کو باہر بٹھادیا لیکن فہیم کو مسلسل کھلا رہے ہیں۔ بہرحال اس اوور میں عماد نے 2 چھکے لگا کر فہیم کا شایانِ شان استقبال کیا۔ اپنی انجری کی وجہ سے عماد میچ جلد ختم کرنا چاہتے تھے اور وہ فہیم اشرف کو گیند تھمانے پر یقیناً شاداب کے شکر گزار ہوں گے۔
یاد رہے کہ فہیم اشرف اب تک پھینکے گئے 2 اوورز میں 30 رنز دے کر کراچی کی پہلے ہی بہت مدد کرچکے تھے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف میچ میں بھی موسیٰ اور صفی کے اوورز باقی ہونے کے باوجود کپتان شاداب نے فہیم کا کوٹا پورا کروانا ضروری سمجھا اور یہ فیصلہ ان کی شکست کا اہم ترین سبب بھی بنا۔
محسن حدید
محسن حدید کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں اور مختلف اخبارات اور ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔