نقطہ نظر

ڈیرن سیمی: پشاور زلمی کے لیے محض برکت کی علامت؟

2 بہترین اسپنرز کی موجودگی کے باوجود پشاور کا بہترین بیٹنگ وکٹ پر4 فاسٹ باؤلرز کے ساتھ میدان میں اترنا غلط فیصلہ لگتا ہے

2 دن کے وقفے کے بعد پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا میلہ ملتان پہنچا تو تماشائیوں سے کھچا کھچ اسٹیڈیم چیخ چیخ کر بتارہا تھا کہ لوگ کھیلوں کی واپسی کے لیے کس قدر بے تاب تھے۔

7 بجے شروع ہونے والے میچ کے لیے 5 بجے سے پہلے ہی قطاریں لگنا تو شاید سیکیورٹی کی وجہ سے ایک مجبوری ہی تھی لیکن اس سب کے باوجود لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ دونوں ٹیموں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور ٹی20 کی روایات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ملتان سلطان نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا، جو بالکل ٹھیک ثابت ہوا۔

پچ کی چمک دیکھ کر شارجہ کی وکٹیں یاد آگئیں، لیکن اس سے پہلے کہ ذہن شارجہ میں ہونے والے دلچسپ مقابلوں کی یادوں میں الجھ جاتا، میچ شروع ہوگیا اور کیا ہی غضب کی شروعات تھی۔

دراز قد محمد عرفان کی گیند باہر کو نکلی تو ٹام بینٹن اس پر ایک ایج دے بیٹھے۔ لیکن اگر اس پچ سے بیٹنن کو اتنی سوئنگ کی توقع نہیں تھی تو پہلی سلپ پر کھڑے جیمز ونس بھی کچھ سمجھ نہ سکے۔ شاید انہیں بالکل توقع نہیں تھی کہ اس وکٹ ہر سلپ میں بھی کیچ آسکتا ہے اور وہ بھی پہلی ہی گیند پر۔

ٹام بیٹنن کو دیے گئے اس موقع کا ملتان سلطان کو زیادہ نقصان نہیں ہوا کیونکہ اسی اوور میں کور کی جانب کھیلے گئے ایک شاٹ کو شاہد آفریدی نے ہوا میں جھپٹتے ہوئے دبوچا اور جب کھڑے ہوکر اپنا مخصوص جشن منایا تو لگا جیسے کہہ رہے ہوں کہ ’میں ابھی بھی جوان ہوں‘۔

حیدر علی جب نمبر 3 پر بیٹنگ کرنے آئے تو ان کے چاہنے والوں کو بس یہی ڈر تھا کہ کہیں حیدر ایک اور موقع ضائع نہ کردیں۔ حیدر علی کا آغاز عمدہ تھا اور دوسری طرف کامران اکمل بھی پچھلے میچ والی فارم میں نظر آرہے تھے۔ یہ وہ موقع تھا جب ملتان سلطان کے لیے حالات اچھے نظر نہیں آرہے تھے۔ لیکن پھر اچانک کامران اکمل چوکوں کی اس لہر میں بہہ گئے اور سہیل تنویر کی گیند پر ریلی روسو کو کیچ دے بیٹھے۔ لیکن پشاور زلمی کو اصل دھچکا چھٹے اوور میں اس وقت لگا جب محمد الیاس کی شاندار باؤلنگ کے سامنے شعیب ملک اور لوِنگ اسٹون بے بس دکھائی دیے اور آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ گئے۔

لیام ڈاسن کے ساتھ حیدر علی کی پارٹنرشپ پشاور کی اننگ کا سب سے بہترین حصہ تھا۔ جہاں ڈاسن سنگل اور ڈبل کے ذریعے اسکور کو آگے بڑھا رہے تھے وہیں حیدر علی بہترین شاٹس کے ذریعے تماشائیوں کو لطف اندوز کر رہے تھے۔ حیدر علی نے اس اننگ میں فاسٹ باؤلرز اور اسپنرز دونوں کو یکساں آسانی کے ساتھ کھیلا، لیکن جب لگا کہ پشاور مشکلات سے نکل رہی ہے، تب حیدر علی نے غلطی کر دی۔ 47 پر کھڑے حیدر نے چھکا لگاکر نصف سنچری مکمل کرنا چاہی مگر وہ ناکام رہے اور باؤنڈری لائن پر ریلی روسو کو دیا گیا کیچ ظاہر کر رہا تھا کہ بہترین شاٹس کھیلنے والے حیدر علی کو ذہنی مضبوطی کی شدید ضرورت ہے۔

حیدر علی کی وکٹ پشاور کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی اور یکے بعد دیگرے گرنے والی وکٹوں کے باعث پشاور جو 170 یا 180 تک پہنچ سکتی تھی وہ صرف 123 رنز پر ہی آؤٹ ہوگئی۔

پشاور کی بیٹنگ لائن کی تباہی میں اہم کردار سہیل تنویر نے ادا کیا جنہوں نے صرف 13 رنز کے عوض 4 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی، جبکہ محمد الیاس اور محمد عرفان نے بھی 2، 2 وکٹیں حاصل کیں۔

اس دوران ڈیرن سیمی کی کپتانی اور بیٹنگ بھی پشاور کے لیے کچھ بہتر ثابت نہ ہوئیں۔ پہلے تو وہاب ریاض کو خود سے اوپر 13ویں اوور میں ہی بیٹنگ کے لیے بھیج دیا اور جب خود بیٹنگ پر آئے تو کہیں سے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ سیمی وہی بیٹسمین ہیں جن کے عتاب سے کوئی باؤلر بھی محفوظ نہیں رہا۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ سیمی اب کافی عرصے سے باؤلنگ چھوڑ چکے ہیں اور کچھ عرصے سے تو ان سے بیٹنگ بھی نہیں ہورہی ہے، اور پھر جب میچ کی پہلی ہی گیند پر انہوں نے جیمز ونس کا کیچ چھوڑا تو خیال آیا کہ پشاور زلمی نے ڈیرن سیمی کو شاید صرف برکت کے لیے رکھا ہوا ہے۔

بیشتر شائقینِ کرکٹ کچھ ایسے ہی خیالات ملتان سلطان کے کپتان شان مسعود کے بارے میں بھی رکھتے ہیں۔ شان مسعود جو ٹیسٹ میں عمدہ کارکردگی دکھا چکے، ڈومیسٹک میں ون ڈے میں بھی اچھی کارکردگی کے حامل ہیں لیکن ان کی بیٹنگ کہیں سے ایسی نہیں لگتی کہ وہ کسی ٹی20 ٹیم میں آسانی سے شامل ہوسکیں۔ ابتدائی 2 میچوں میں اوپننگ کرنے والے شان اس میچ میں تیسرے نمبر پر بیٹنگ کے لیے آئے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا۔

جمیز ونس کا کیچ پہلی گیند پر چھوٹ گیا لیکن اسی اوور میں ونس وکٹ دے بیٹھے۔ پھر جلد ہی معین علی اور شان مسعود بھی پویلین لوٹ گئے تو لگ رہا تھا کہ میچ کافی دلچسپ بن سکتا ہے۔ ذیشان اشرف کو کچھ زیادہ ہی جلدی تھی جو 5 گیندوں پر 3 چوکے لگا کر چلتے بنے حالانکہ ایک اور بڑا اسکور بنانے کا بہت اچھا موقع تھا۔

47 رنز پر 4 وکٹیں گرنے کے بعد میچ دلچسپ ہوسکتا تھا مگر ریلی روسو اور خوشدل شاہ نے سمجھداری سے بیٹنگ کرتے ہوئے ایسے کسی بھی امکان کو زمین بوس کردیا۔ روسو کافی روانی سے کھیل رہے تھے لیکن خوشدل شاہ صرف سنگلز پر ہی زیادہ انحصار کیے ہوئے تھے۔ شاید پچھلے میچ میں ناکامی خوشدل کے دماغ میں تھی اور وہ ایک بار پھر سے سنہری موقع ضائع کرنا نہیں چاہ رہے تھے۔

روسو اس دوران بہترین ہٹنگ کا مظاہرہ کر رہے تھے اور مطلوبہ رن ریٹ ہر گزرتے اوور کے ساتھ کم ہو رہا تھا۔ ڈیرن سیمی نے اس دوران وکٹ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی اور اپنے تینوں تجربے کار فاسٹ باؤلرز وہاب ریاض، حسن علی اور راحت علی کو استعمال کرلیا لیکن دونوں بیٹسمینوں کے سامنے ہدف کچھ زیادہ مشکل نہیں تھا تو انہوں نے کوئی خطرہ مول نہیں لیا۔ لیکن جیسے ہی پشاور نوجوان عامر خان کو باؤلنگ کے لیے لائی تو خوشدل شاہ نے اپنا اصل کھیل پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔

عامر کے اوور میں خوشدل شاہ نے 2 چوکے اور ایک چھکا لگایا جبکہ روسو نے بھی ایک چوکا لگایا اور یوں اس اوور میں ملتان نے 22 رنز بنالیے۔ اس ایک اوور نے خوشدل شاہ کو زبردست اعتماد دیا اور انہوں نے اگلے اوور میں وہاب ریاض کو بھی چھکا لگا دیا، یوں انہوں نے 29 گیندوں پر 43 رنز کی شاندار اننگ کھیلی۔

یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ عامر خان کے اوور سے پہلے خوشدل نے 21 گیندوں پر محض 19 رنز ہی بنائے تھے۔ ریلی روسو نے میچ کے دوران خود کو درپیش فٹنس مسائل کے باوجود 49 رنز کی عمدہ اننگ کھیلی۔ سہیل تنویر کو ان کی شاندار باؤلنگ کی وجہ سے مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔

پشاور زلمی کے ٹام بینٹن جو ٹی20 میں بہترین کارکردگی دکھا چکے ہیں، وہ پاکستان سپر لیگ میں ابھی تک ناکامی سے دوچار ہیں۔ اس لیے یہ سوال اب بنتا ہے کہ کیا اب وہ وقت نہیں آگیا ہے کہ انہیں ایک یا 2 میچوں میں آرام کا موقع دے کر کسی اور کو کھلایا جائے؟ پشاور کے کیمپ میں ویسٹ انڈیز سے تعلق رکھنے والے کارلوس بریتھویٹ بھی موجود ہیں، اور وہ مخالف ٹیم کے لیے کتنے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، یہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔

اسی طرح بہترین بیٹنگ وکٹ پر پشاور کا 4 فاسٹ باؤلرز کے ساتھ میدان میں اترنا بھی کچھ غلط لگتا ہے، اور خاص طور پر تب جب ان کے پاس محمد محسن اور عامر علی جیسے 2 بہترین اسپنرز بھی موجود ہیں۔ پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی کو بھی آگے آکر کچھ کر دکھانا ہوگا۔

دوسری طرف ملتان سلطان اگرچہ یہ میچ جیت گئے لیکن ان کے ابتدائی بیٹسمینوں کی ناکامی بھی اگلے میچوں میں انہیں مشکلات کا شکار کرسکتی ہے۔ ذیشان اشرف جو اوپنر ہیں اور گیند کو دائرے کے اوپر سے اچھال کر تیزی سے اسکور بنا سکتے ہیں، انہیں اوپنر کھلانا بھی ممکن ہے جبکہ معین علی نیچے بیٹنگ کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب باؤلنگ میں جنید خان کو بھی ایک موقع دیا جاسکتا ہے۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔