نقطہ نظر کورونا وائرس کہیں جنگلی حیات کا جوابی وار تو نہیں؟ وائرس چاہے کہیں سے بھی آیا ہو لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس وبا کے پھیلاؤ میں چین میں کھانوں کی ترجیحات کا بڑا ہاتھ ہے۔ عرفان حسین عرفان حسین چین کے نئے قمری سال کو چوہے سے منسوب کیا گیا ہے۔ روایتاً نئے سال کی آمد پر بھرپور انداز میں خوشیاں منائی جاتی ہیں مگر مہلک کورونا وائرس ساری خوشیاں ہی کھا گیا ہے۔ وائرس کا مرکز جاننے کے لیے کوشاں متعدد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس وائرس کا باعث ہوبی صوبے میں واقع کسی غار کے چمگادڑ ہیں۔ پھر یہ وائرس بظاہر پیشاب یا فضلے کے ذریعے ووہان کے سی فوڈ مارکیٹ میں تنگ پنجروں میں بند پھر مشک پھیلاؤ بلاؤ تک پہنچا۔ چند حیاتیاتی شعبے کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سانپ ہیں۔ وائرس چاہے کہیں سے بھی آیا ہو لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس وبا کے پھیلاؤ میں چین میں کھانوں کی ترجیحات کا بڑا ہاتھ ہے۔مجھے غلط مت سمجھ لیجیے گا۔ کھانے پینے کا شوقین ہونے کے ناطے مجھے کھانوں میں نئے تجربے کرنا پسند ہیں اور انواع اقسام کے لذیذ کھانوں کو چکھنے کے لیے جانا جاتا ہوں۔ ایک بار ہانوئی میں جب میں تلی ہوئی ٹڈیاں ہڑپنے میں مصروف تھا کہ اچانک میری بیگم نے مجھے یہ کہتے ہوئے انہیں کھانے سے روک دیا کہ، ’اس میں یہ ٹڈی نہیں بلکہ لال بیگ جیسی کوئی چیز نظر آتی۔‘ آج تک مجھے یہ معلوم نہیں چل سکا ہے کہ آیا وہ مذاق کر رہی تھیں یا پھر سچ کہہ رہی تھیں۔ مگر چمگاڈر؟ مشک بلاؤ؟ بالکل بھی نہیں بھائی۔ مگر ہر کوئی میری یا آپ کی طرح اسے کھانے سے انکار کرنا نہیں چاہے گا۔ چین میں موجود زیادہ تر مذاہب میں کھانے پینے سے متعلق خصوصی ہدایات یا اصول شامل نہیں ہیں لہٰذا لوگوں کے جو جی میں آئے اسے پکڑ کر کھا جاتے ہیں۔ بلکہ امرا تو اکثر مینو میں شامل سب سے مہنگے جانور یا کیڑے مکوڑے کا آڈر دیتے ہیں۔ لہٰذا نت نئے تجربات کے شوقین چینی باشندوں کی تمنا پوری اور انہیں متاثر کرنے کے لیے دنیا کی قومیں اپنی جنگلی حیات کھوتی جارہی ہیں۔ افریقہ کے گدھوں کو چین بھیجا جا رہا ہے جہاں ان کی کھالوں کو روایتی ادویات میں استعمال ہونے والے جیلٹن میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اب تو پاکستان سے بھی گدھوں کی کھالوں کو چین برآمد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، اور ہاں چین میں گدھوں کا گوشت ضائع نہیں ہوتا بلکہ کھایا جاتا ہے۔ چین میں کھانے کی عادات کی وجہ سے پینگولن کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان لاچار چھلکوں والے جانوروں کو مشرقی افریقہ سے پکڑ کر پاکستان لایا جاتا ہے جہاں سے انہیں چین بھیجا جاتا ہے، چین میں یہ 470 ڈالر فی کلو فروخت کیے جاتے ہیں (جبکہ 1990ء کی دہائی میں اسی جانور کا گوشت صرف 11 ڈالر فی کلو بیچا جاتا تھا۔) ویت نام اور چین میں چھلکوں کےلیے مزید 3 ہزار ڈالر فی کلو کے حساب سے مزید مہنگے بیچے جاتے ہیں جنہیں مختلف پکوانوں اور مردانہ کمزوری کے علاج کے طور پر بھی استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ معدومیت کے خطرے سے لاحق جانوروں اور پرندوں کا وجود ہی خطرے میں پڑگیا انہیں مشکل سے ملنے والی مردانہ طاقت کی کھوج کھاتی جارہی ہے۔ ہمارے اپنے تلور عرب شہزادوں کی مردانگی برقرار رکھنے کی خواہش کی بھاری قیمت چکاتے ہوئے تعداد میں کم ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر بھارتی چیتوں، گینڈوں کا ان کے سینگ اور ہاتھیوں کا ان کے دانتوں کے لیے ہونے والے شکار نے ان کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ خوش قسمتی سے پانڈا اور وہیل کی کئی اقسام اب سست رفتاری سے دوبارہ پھل پھول رہی ہیں اور کچھ حد تک اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ جانوروں سے محبت کرنے والوں کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جہاں تعلق اچھا ہو وہاں بھلا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ ہوبی کی کسی غار کے چمگادڑ ہیں تو شاید آپ کے ساتھ بھلا نہ کیا جائے۔ دیگر ریچھوں نے اب اپنے سفروں پر ہی نہیں نکلتے بلکہ چند کو تو چینی ادویات میں استعمال ہونے والے ایک خفیہ مائع کی تیاری کے لیے پنجروں میں بند رکھا جاتا ہے۔خوش قسمتی سے چین نے گوشت کی منڈیوں کو بند کردیا ہے لیکن یہ بندش کب تک رہے گی، اور آیا اس پر عمل درآمد جاری رہے گا یہ ایک کھلا سوال ہے۔ اگر ہم 2003ء میں سارس وائرس سے پھیلنے والی وبا کو یاد کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ چینی حکام ماضی سے شاید حکام نے سبق حاصل نہیں کیا ہے۔مگر موجودہ وبائی مرض کی وجہ سے چین کو بھاری نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ سیاح اور سرمایہ کار ایسے کسی ملک جانے سے ہچکچائیں گے جہاں ان کی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ لاکھوں بیرون ملک چینی باشندوں کو اب کورونا وائرس کے ممکنہ کیریئرز کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ اب جبکہ صدر ژی چین کو فہرست میں اول نمبر تک پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں، ایسے میں وہ قطعی نہیں چاہیں گے کہ ان کا ملک ایک اچھوت زمین کا ٹکڑا بن کر رہ جائے۔تو کیا کورونا وائرس کی صورت میں جنگلی حیات پلٹ کر وار کر رہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو میں اس لڑائی میں یقیناً پینگولن اور گدھوں کی ٹیم کے ساتھ ہوں۔ کوئی بھی مجھے اس بات پر قائل نہیں کرسکتا کہ معدومیت کے خطرے کے شکار کسی جانور کا گوشت میرے لیے اچھا ہے، پھر چاہے اس کا ذائقہ کتنا ہی لذیذ کیوں نہ ہو۔ اور پھر مختلف قوموں کی اپنی اپنی کھانوں کی پسند اور ترجیحات ہیں، جو یقیناً غیرملکیوں کو عجیب لگتی ہوں گی۔ فیو گراس بنانے کے لیے قازوں کے جگر کو جبراً خوراک کھلا کر بڑا کیا جاتا ہے اور یہ عمل ان پرندوں کے لیے نہایت دردناک ثابت ہوتا ہوگا لیکن ہم پھر بھی اس عمل سے باز نہیں آتے کیونکہ ہمیں تو ملائم سی پیسٹ حاصل کرنی ہوتی جو مہنگے ریسٹورنٹس میں بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے۔عالمی سطح پر تنقید کے باوجود جاپان کے لوگ وہیل مچھلیوں کا شکار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گہرے سمندر میں پائی جانے والی ان بڑی مچھلیوں کے گوشت کو فریز کرکے محفوظ کردیا جاتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے وہیل مچھلیوں کے گوشت کے استعمال میں معمولی سی کمی ہی آئی ہے لیکن جاپانیوں کا اصرار ہے کہ وہیل مچھلی کا گوشت ان کی ثقافت کا حصہ ہے۔فرانس، اٹلی اور جرمنی میں لوگ اب بھی گھوڑے کا گوشت کھاتے ہیں۔ جب میں اپنی نوعمری کے دوران پیرس میں قیام پذیر تھا ان دنوں قصائیوں کی بہت سی دکانوں کے آگے گھوڑوں کی سریاں سجی ہوئی مل جاتی تھیں۔ مجھے ایک بار اٹلی میں ہارس اسٹیک کھانے کا اتفاق بھی ہوا جو چربی سے پاک اور لذیذ پکوان تھا۔ کبھی سوچا ہے کہ غیرملکی نلی نہاری جیسے ہمارے پسندیدہ پکوان کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے؟ آخر میں بات زاویہ نظر اور ذائقے کی پسندیدگی پر آ کر ختم ہوتی ہے۔ لیکن ہاں میں اب بھی چمگادڑوں کی کسی ڈش کو ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کروں گا۔یہ مضمون یکم فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ عرفان حسین لکھاری کا ای میل ایڈریس irfan.husain@gmail.com ہے۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔