مواخذے کی اس کوشش سے کس کو فائدہ ہوا اور کس کو نقصان؟
ڈونلڈ ٹرمپ تو ایک دن چلے جائیں گے اور تاریخی کالیگولا اور تصوراتی وولڈمارٹ جیسے کرداروں کی فہرست کا حصہ بن جائیں گے مگر ان کی بدبودار ناموری طویل عرصے تک باقی رہے۔
جب تک ان کے پاس ان سے اندھی عقیدت رکھنے والے اور ان کے مہنگے کپڑوں سے چمٹے ہوئے 40 فیصد امریکی ووٹرز کی حمایت حاصل ہے تب تک وہ بدنامی کا ذائقہ چھکتے ہی رہیں گے۔
اس مصنوعی مسیحے کا واحد عقیدہ ذاتی مفادات کا حصول ہے۔ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتے، وہ حکومت کو کسی بڑی کاروباری انٹرپرائز سمجھ کر چلاتے ہیں، یعنی انہوں نے اپنے اقتدار میں ایک گھٹیا آمرانہ و جابرانہ طرزِ حکومت اپنایا ہوا ہے، اور بدانتظامی سے بھرپور نظام کو اسی طرح سے پوری لاپرواہی کے ساتھ چلا رہے ہیں جس طرح پہلے انہوں نے اپنے دیوالیہ کاروباری اداروں کو چلایا تھا۔
تاہم ان تمام تر خرابیوں کے باوجود ایک مقام پر ٹرمپ معقول اور سمجھدار عامل معلوم ہوتے ہیں۔ ٹرمپ نے اشرافیہ کو وہ سب کچھ دیا جس کی انہوں نے خواہش کی تھی، مثلاً ٹیکس کٹوتیاں، فوجی کھلونے، مزدور مخالف اقدامات، ماحولیاتی مسائل سے لاتعلقی، فلاحی اخراجات میں کٹوتیاں، مختلف شعبوں میں ریاستی نگرانی کا خاتمہ اور غلامانہ نظام کی بحالی کے سوائے ہر جگہ پر ان کے حق میں فیصلے کیے گئے۔