نقطہ نظر افغان مفاہمتی عمل اور ہم سے وابستہ دنیا کی توقعات جب تک جنگ بندی جیسی کسی پیش رفت کے بغیر افغان حکومت کو امریکا-طالبان معاہدے کی حمایت کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ نجم الدین شیخ لکھاری سابق خارجہ سیکریٹری ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران ایک طرف جہاں امریکی صدر نے اپنے ابتدائی کلمات میں کشمیر پر بات کی اس کے باوجود دوسری طرف جب عمران خان کو یہ کہتے ہوئے پایا گیا کہ افغان معاملہ ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور یہ معاملہ باہمی مفادات کا حامل ہے تو زیادہ حیرانی نہیں ہوئی۔وزیراعظم بخوبی جانتے تھے کہ بھلے ہی ٹرمپ ایسی باتیں کرتے ہوں کہ وہ کشمیر معاملہ پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں، مگر ان کے اسٹیٹ اور دفاعی محکمہ جات انہیں یہی کہیں گے کہ جب بھارت مانے گا صرف اسی صورت میں کوئی کارروائی ممکن ہوگی اور یہ کہ امریکا اور بھارت کے مابین ’اسٹریٹجک اتحاد‘ اس قدر زیادہ اہم ہے کہ امریکا ہٹ دھرم نریندر مودی پر دباؤ ڈالنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس سے قبل ہمارے وزیر خارجہ نے واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے اپنی فہم و فراست کے مطابق یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ افغانستان 9/11 کے بعد سے کس حد تک بدل چکا ہے اور کس طرح حالات کی تبدیلی کے سبب طلبان اگر ملک کا اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہوں تو انہیں بطور ایک سیاسی جماعت سامنے آنا ہوگا۔ لیکن زمینی صورتحال کیا ہے اور اس سے بھی ضروری سوال یہ ہے کہ دوحہ میں زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا تاحال نتیجہ کیا نکلا ہے؟ صدر اشرف غنی 50 فیصد سے تھوڑے زیادہ ووٹ حاصل کرکے عملی طور پر انتخابات میں کامیاب ہوچکے ہیں، معمولی سے فرق کے ساتھ حاصل ہونے والی اس اکثریت کی بدولت افغانستان میں اب دوبارہ انتخابات کی ضرورت نہیں رہی۔دوسری طرف انتخابات میں حصہ لینے والے ان کے حریف چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ نے اس کامیابی کو تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ جب تک حتمی نتائج نہیں آجاتے تب تک قومی اتحاد حکومت اور ان کی زیر سربراہی کام کرنے والی وزرا کی کونسل فعال رہے گی۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ کسی بھی قسم کے مذاکرات میں افغانستان کی طرف سے وسیع گروہ کی شرکت یقینی بنائی جائے اور اسے کسی ایک وزارت یا ہائی پیس کونسل تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اگر جنگ بندی ہوتی ہے، جس کا مطالبہ زیادہ تر افغان رہنما کر رہے ہیں، اس کے بعد ہی افغان صدر کے لیے افغانستان کی سیاسی و سماجی قیادت کے زیادہ تر حلقوں پر مشتمل ایک وسیع ٹیم بنا سکیں گے۔ جب تک جنگ بندی یا اس قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تب تک افغان حکومت کو امریکا-طالبان معاہدے کی حمایت کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ 21 جنوری کو دوحہ میں طلبان کے ترجمان نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’پہلے دن سے جنگ بندی پر کسی قسم کی بات چیت نہیں ہوئی، لیکن امریکا نے پرتشدد واقعات میں کمی لانے کی تجویز پیش کی ہے جبکہ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ معاہدے کے دنوں کے دوران محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔‘ دوسری طرف اے پی کی کیتھی گینن نے چند روز قبل اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ طالبان کی ٹیم نے خلیل زاد کو 7 سے 10 دنوں کی جنگ بندی کی پیش کش کی ہے، اس کے ساتھ وہ یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اس سے پہلے دسمبر میں پاکستان میں طالبان قیادت نے جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی، اب ان میں سے کس بات پر یقین کیا جائے؟ یا شاید یہ دو رائے دراصل اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ مذاکراتی عمل میں شامل مختلف طالبان ارکان مختلف باتیں بتا رہے ہیں۔ دیگر لفظوں میں کہیں تو جس طرح کابل میں افغان حلقوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں ٹھیک اسی طرح دوحہ میں موجود طالبان تفریقات کا شکار ہیں۔ افغانستان میں معاشی صورتحال کیسی ہے؟ اگر میرے اعداد و شمار درست ہیں تو امریکا 3 لاکھ 20 ہزار افغان نیشنل ڈیفنس سیکیورٹی فورسز کو 4.6 ارب امریکی ڈالرز کی امدادی رقم فراہم کرتا ہے جبکہ اشرف غنی کی متعارف کردہ اصلاحات کی بدولت ملکی ٹیکس ریوینیو کی صورتحال میں بہتری آنے اور سالانہ ایک ارب ڈالر تک پہنچ جانے والے برآمدات کے حجم میں حوصلہ افزا اضافے کے باوجود افغانستان کے سالانہ بجٹ کا 53 فیصد حصہ امریکا اور دیگر امدادی ادارے فراہم کرتے ہیں۔ اگر افغانستان کو یہ مالی مدد ملنا بند ہوجائے تو حکومت کے پاس مسلح افواج کو تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہوں گے اور کئی سارے اسکولوں اور ہسپتالوں کو بھی بند ہونا پڑے گا۔ اگر امریکا ممکنہ طور افغانستان میں دہشتگرد تنظیم دولت اسلامیہ کی موجودگی کے آثار کو مد نظر رکھتے ہوئے انسداد دہشتگردی کے نکتہ نظر سے افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھتے ہیں تو پھر شاید ٹرمپ کو اس بات پر قائل کیا جاسکتا ہے کہ اس ضمن میں یہ مالی مدد نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ہماری نظر میں افغانستان میں دولت اسلامیہ کی موجوگی کا بڑی حد تک مطلب تحریک طالبان پاکستان، ازبک و اویغور مخالفین اور وہ لوگ ہیں جو افغانستان میں بدنظمی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ غیر مستحکم افغانستان میں ان کی موجودگی ہمارے لیے ایک بڑے خطرے سے کم نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مفاہمتی عمل کی غیرموجودگی یا پھر سنجیدہ غیر ملکی مدد کے بغیر کی جانے والی مفاہمتی کوششوں سے افغانستان کی بگڑتی صورتحال پر قابو نہیں پایا جاسکے گا اور طورخم اور چمن بارڈر کے ذریعے افغان باشندوں کی آمد کے سلسلے میں کئی گنا اضافہ ہوگا واضح رہے اس وقت روزانہ 40 ہزار افغان باشندے مذکورہ سرحدوں سے یہاں آتے ہیں۔ ہم جہاں اپنی افغان سرحدوں کو باڑ لگا کر محفوظ بنانے کا کام بڑی حد انجام دے چکے ہیں وہیں ہم نے افغانستان کے ساتھ ویسے ہی تعلقات قائم کرنے کی طرف قدم بھی بڑھایا ہے جیسے دنیا کے دیگر حصوں میں دو پڑوسی ممالک کے درمیان ہوتے ہیں۔ مگر گندم کی قلت کے اسکینڈل نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کی ہوئی ہے، اس لیے غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ دیہی افغانستان کی آمدن کے ایک بڑے حصے کا دارومدار پوست کی کاشت کاری، اس کی ہیروئن میں منتقلی اور اس کی اسمگلنگ پر ہے۔ مگر اس کی وجہ سے پاکستان میں بہت سے لوگ افیون کے عادی بن چکے ہیں، افغانستان اور پاکستان کے درمیان سب سے زیادہ اسمگل ہونے والی چیزوں میں سے ایک بھی ہے، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت ممکنہ طور پر 80 لاکھ منشیات کے عادی افراد پائے جاتے ہیں، اور کئی سارے اسمگلرز افسران اور مقامی بااثر افراد کو رشوتیں دے کر اسمگلنگ کرتے ہیں، اس وجہ سے گورننس میں بہتری لانے کی کوششوں کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ایک آخری قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ، ہمارے لوگوں کو فکر ہے کہ بولی ووڈ وغیرہ جیسی نرم طاقت اور مختلف منصوبوں کے لیے 2 ارب کی ادائگی کے ذریعے بھارت کا افغانستان میں بڑھتا ہوا اثر ہمارے لیے خطرناک ہے۔ مگر میں اس خیال سے ذرا بھی اتفاق نہیں رکھتا کیونکہ بھارت ہم سے متصل اپنی سرحدی زمین اور ہماری انتہائی سرایت پذیر ساحل (جسے اسمگلرز کی جنت بھی کہا جاتا ہے) سے ہمیں زیادہ آسانی سے نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور افغانستان میں اس کے اثر سے ہمیں نقصان پہنچانے کی صلاحیت بہت زیادہ نہیں بڑھ جائے گی۔کوئی بھی حلقہ اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ دوحہ سے آنے والی طالبان ٹیم پاکستان میں طالبان قیادت سے ہدایات لینی آئی تھی۔ ہم طالبان پر اپنے محدود اثر و رسوخ کی بات کرتے ہیں مگر اس کے باوجود چاہے اچھا لگے یا بُرا،ہمیں یہ باور کرایا جائے گا کہ چونکہ قیادت یہاں پر موجود ہے اس لیے ہمارے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔ صرف امریکا اور اس کے مغربی اتحادی ہی نہیں بلکہ دنیا یعنی چین اور روس بھی ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم سرکش طالبان کو ایک ایسے مؤقف اپنانے پر راغب کریں کہ جس سے افغانستان کو حاصل ہونے والی مالی و دیگر مدد کے جاری سلسلے کو خطرے میں ڈالے بغیر قیام امن ممکن ہوسکے۔اس سلسلے میں ہمیں کون سی پالیسی اپنانی چاہیے؟ پڑھیے میرے اگلے مضمون میں۔یہ مضمون 25 جنوری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ نجم الدین شیخ لکھاری سابق خارجہ سیکریٹری ہیں۔ اس وقت آئی او بی ایم کے شعبہ گلوبل اینڈ ریجنل اسٹیڈیز سینٹر کے سبربراہ ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔