افغان مفاہمتی عمل اور ہم سے وابستہ دنیا کی توقعات


وزیرِاعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران ایک طرف جہاں امریکی صدر نے اپنے ابتدائی کلمات میں کشمیر پر بات کی اس کے باوجود دوسری طرف جب عمران خان کو یہ کہتے ہوئے پایا گیا کہ افغان معاملہ ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور یہ معاملہ باہمی مفادات کا حامل ہے تو زیادہ حیرانی نہیں ہوئی۔
وزیراعظم بخوبی جانتے تھے کہ بھلے ہی ٹرمپ ایسی باتیں کرتے ہوں کہ وہ کشمیر معاملہ پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں، مگر ان کے اسٹیٹ اور دفاعی محکمہ جات انہیں یہی کہیں گے کہ جب بھارت مانے گا صرف اسی صورت میں کوئی کارروائی ممکن ہوگی اور یہ کہ امریکا اور بھارت کے مابین ’اسٹریٹجک اتحاد‘ اس قدر زیادہ اہم ہے کہ امریکا ہٹ دھرم نریندر مودی پر دباؤ ڈالنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اس سے قبل ہمارے وزیر خارجہ نے واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے اپنی فہم و فراست کے مطابق یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ افغانستان 9/11 کے بعد سے کس حد تک بدل چکا ہے اور کس طرح حالات کی تبدیلی کے سبب طلبان اگر ملک کا اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہوں تو انہیں بطور ایک سیاسی جماعت سامنے آنا ہوگا۔ لیکن زمینی صورتحال کیا ہے اور اس سے بھی ضروری سوال یہ ہے کہ دوحہ میں زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا تاحال نتیجہ کیا نکلا ہے؟
جب تک جنگ بندی یا اس قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تب تک افغان حکومت کو امریکا-طالبان معاہدے کی حمایت کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔
21 جنوری کو دوحہ میں طلبان کے ترجمان نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’پہلے دن سے جنگ بندی پر کسی قسم کی بات چیت نہیں ہوئی، لیکن امریکا نے پرتشدد واقعات میں کمی لانے کی تجویز پیش کی ہے جبکہ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ معاہدے کے دنوں کے دوران محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔‘ دوسری طرف اے پی کی کیتھی گینن نے چند روز قبل اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ طالبان کی ٹیم نے خلیل زاد کو 7 سے 10 دنوں کی جنگ بندی کی پیش کش کی ہے، اس کے ساتھ وہ یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اس سے پہلے دسمبر میں پاکستان میں طالبان قیادت نے جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی، اب ان میں سے کس بات پر یقین کیا جائے؟ یا شاید یہ دو رائے دراصل اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ مذاکراتی عمل میں شامل مختلف طالبان ارکان مختلف باتیں بتا رہے ہیں۔ دیگر لفظوں میں کہیں تو جس طرح کابل میں افغان حلقوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں ٹھیک اسی طرح دوحہ میں موجود طالبان تفریقات کا شکار ہیں۔
اس سلسلے میں ہمیں کون سی پالیسی اپنانی چاہیے؟ پڑھیے میرے اگلے مضمون میں۔
لکھاری سابق خارجہ سیکریٹری ہیں۔ اس وقت آئی او بی ایم کے شعبہ گلوبل اینڈ ریجنل اسٹیڈیز سینٹر کے سبربراہ ہیں۔