حیرت انگیز

اکیسویں صدی کی پہلی 2 دہائیوں کی سب سے بڑی سائنسی کامیابیاں

گزشتہ 2 دہائیوں میں سائنسدانوں کو متعدد کامیابیاں ملیں مگر ان میں سے کچھ ایسی تھیں جنہوں نے دنیا کو بدل دیا۔

سال 2019 کے ختم ہوتے ہی اکیسویں صدی کے ابتدائی 20 سال کا بھی اختتام ہوگیا، 21 ویں صدی کی ان دو دہائیوں میں دنیا بھر میں دنیا کو تبدیل کرنے والی کیا سائنسی ایجادات ہوئیں اور کن تحقیقات نے دنیا کو بدل دیا اس کا علم بہت کم لوگوں کو ہوگا اور جو لوگ ان تحقیقات سے متعلق علم بھی رکھتے ہوں گے وہ بھی انہیں دنیا کی تبدیلی کے لیے اتنا اہم نہیں سمجھتے ہوں گے۔

ہم اس مضمون میں گزشتہ 20 سال میں دنیا بھر میں ہونے والی 20 سرفہرست اور نمایاں کامیابیوں کا ذکر کریں گے اور دیکھیں گے ان کامیابیوں کے اب تک دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوئے اور مستقبل میں ان کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

دنیا کی پہلی 2 پہیوں پر چلنے والی مشین - 2000

—فوٹو: لائیو منٹ

نئی صدی کے آغاز میں ہی یعنی سال 2000 میں ڈین کامن نامی شخص نے 2 پہیوں پر چلنے والی مشین بنائی جس پر انسان خود سوار ہوکر ایک ہینڈل کی مدد سے کہیں بھی سفر کر سکتے ہیں، یہ مشین ان لوگوں کے لیے مفید ہے جنہیں سائیکل یا موٹر سائیکل کو بیلنس کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ابتدائی طور پر اس مشین کو غیر اہم سمجھا گیا اور اب بھی کئی ممالک میں اس مشین کو غیر اہم ہی تصور کیا جاتا ہے تاہم آج ترقی یافتہ ممالک میں اس مشین کا استعمال بڑھ رہا ہے اور آئندہ چند سال میں اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگا۔

پہلی بار انسان کے جینیات کا مکمل خاکا تیار - 2001

—فوٹو: سلائیڈ شیئر ڈاٹ نیٹ

نئی صدی کے اگلے ہی سال 2001 میں 'ہیومن جینوم پروجیکٹ' سامنے آیا یہ جینیات میں نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر انسانی ڈی این اے میں موجود تمام 'جینز' کا خاکہ تیار کیا جوکہ جینیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے مرکزی نقشے کی طرح ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ جانداروں کے خلیوں میں ڈی این اے موجود ہوتا ہے اور آپ اسے یوں سمجھ لیں کہ یہ اس جاندار کا کنٹرول یونٹ ہے، ڈی این اے میں جو کچھ کیمیائی طور پر لکھا ہوگا وہی خصوصیات ان جاندار کی ہوں گی، اس لیے جب سائنس دانوں نے انسانی ڈی این اے کے ہر جین کو نقشے کی صورت میں بنا لیا تو دنیا بھر میں بیماریوں کے خلاف ویکسین بنانے اور دوسرے علاج کرنے میں بہت مدد حاصل ہوئی کیونکہ اب سائنسدانوں کو اس بات کا پتہ ہے کہ کونسی (پیدائشی) بیماری کس جین میں خرابی کی وجہ سے ہوتی ہے.

انسان کے مزید ارتقائی آبا دریافت - 2002

—فوٹو: سیکر

انسان ہمیشہ ہی اپنے آغاز کے حوالے سے متجسس رہا ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ وہ کیسے وجود میں آیا، اس لیے اپنے سوال کا جواب فوسل کی دنیا میں تلاش کرتا ہے. ارتقا کا عمل آج بھی جاری ہے لیکن سائنسدان آج موجود جانداروں کے ارتقائی آبا ڈھونڈھنے میں مشغول ہیں۔

سال 2002 میں سائنسدانوں نے 'اردپتھکس رامڈس' نامی جاندار کی کھوپڑی دریافت کی لیکن 2009 تک اس جاندار کے پورے جسم کا فوسل دریافت کیا جاچکا ہے، تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ جاندار انسان اور مانس کے درمیانی آبا ہوسکتے ہیں، سائنسدانوں کا مزید کہنا ہے کہ یہ جاندار 44 کروڑ سال پہلے دو ٹانگوں پر چلتے تھے اور گوشت خور ہونے کے ساتھ ساتھ درختوں پر چڑھنا بھی بخوبی جانتے تھے۔

'سدنا' کی دریافت - 2003

—فوٹو: یونیورس ٹوڈے

مارچ 2003 میں ماہرین فلکیات نے بتایا کہ انہیں نظام شمسی میں ایک سیارہ نما چیز ملی ہے جو سورج سے ابھی تک نظام شمسی میں دریافت شدہ ہر چیز سے تقریبا دوگنا دور ہے، اس کا نام 2003 VB12 رکھا گیا، سائنسدنوں کا خیال ہے کہ یہ شے اورٹ کے بادل میں پائی جاتی ہے، یہ چھوٹا سیارہ اتنا ٹھنڈا ہے کہ اس کا نام 'سدنا' رکھا گیا۔

نینو مکڑی کی ٹیکنالوجی - 2004

—فوٹو: وکی میڈیا

سال 2004 میں ٹیکنیکل یونیورسٹی آف لیبرک نے 'نینو اسپائیڈر (مکڑی)' نامی طریقہ دریافت کیا جس سے بہت ہی ہلکے فائبر بنائے جاسکتے ہیں اور آسانی سے علاج کیا جاسکتا ہے، ان فائبرز کا استعمال ٹشو انجینئرنگ اور ان جگہوں پر کیا جاسکتا ہے جہاں سائنسدانوں نے خوردبینی سطح پر دو چیزیں آپس میں جوڑنی ہوں۔

دنیا میں پہلی بار چہرے کا ٹرانسپلانٹ - 2005

—فوٹو: ٹرانسپلانٹ سرجری ڈاٹ یو سی ایس ایف

سال 2005 میں کلیولینڈ کلینک کے ڈاکٹروں نے ایک خاتون کے چہرے کو ٹرانسپلانٹ کرنے کے بعد کچھ حد تک نارمل بنایا، یہاں ٹرانسپلانٹ سے مراد یہ ہے کہ ڈاکٹروں نے اسی خاتون کے خاندان کے کسی ایسے شخص کی جلد کا استعمال کیا جو کچھ ہفتوں پہلے ہی فوت ہوا ہو، اس خاتون کے کیس میں اس کے خاندان میں کچھ ہفتوں پہلے فوت ہونے والی عورت کی جلد کا استعمال کیا گیا۔

تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی چہرے کا ٹرانسپلانٹ ہوچکا ہے لیکن یہ ٹرانسپلانٹ اس لیے منفرد ہے کیونکہ اس میں تقریبا مکمل چہرہ ہی بنایا گیا۔

ڈارک میٹر کی دریافت - 2006

—فوٹو: اسٹینفورڈ یونیورسٹی

آج انسان کائنات میں جتنی بھی چیزیں دیکھتے ہیں وہ کائنات کے کُل مادے کے 5 فیصد سے بھی کم ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی 95 فیصد کیا ہے؟ تو فلکیاتی ماہرین بتاتے ہیں کہ 95 فیصد میں سے 26 فیصد ڈارک میٹر اور 68 فیصد ڈارک انرجی ہے۔

ڈارک انرجی کے بارے میں تو انسان ابھی تک بہت کم جانتے ہیں لیکن ڈارک میٹر کی دریافت کے بعد سے سائنسدانوں نے اس کا اثر کائنات میں ہر جگہ دیکھا لیکن اسے ابھی تک دیکھا نہیں گیا تھا، تاہم 2006 میں اسٹانفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین جب ایک کہکشاں کے گروہ جسے "بلیٹ کلسٹر" بھی کہا جاتا ہے اسے دیکھ رہے تھے تو انہیں کچھ ایسا نظر آیا جو پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

اس گروہ میں دو کہکشائیں آپس میں ٹکراتی دکھائی دے رہی ہیں لیکن ماہرین نے یہ دیکھا کہ عام مادے کی نسبت 'ڈارک' مادے بہت تیزی سے ایک سے دوسری طرف جارہے ہیں، حسابات کے بعد معلوم ہوا کہ یہ ڈارک میٹر ہے اور سائنسدانوں نے یہ بھی بتایا کہ تحقیق بتاتی ہے کہ ڈارک میٹر ہماری کائنات میں عام مادے کی نسبت 5 گنا زیادہ ہے.

جلد کی مدد سے نئی جلد بنانا ممکن - 2007

—فوٹو: اسپرنگر لنک

انسان آئے دن نئے نئے تجربات کرتا رہتا ہے تاکہ انسانیت کا بھلا ہوسکے، ایسا ہی کچھ 2007 میں کیلی فورنیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کیا کہ مریض کی جلد سے لیے گئے خلیوں کو واپس سٹم خلیوں میں تبدیل کردیا جس کے بعد ان سے کسی بھی طرح کا خلیہ بنانا ممکن ہوا۔

اسٹم خلیے ایسے خلیے ہوتے ہیں جن سے مکمل جاندار بنتا ہے، اس خلیوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے ان کی جین کو آن /آف کرکے کسی بھی طرح کے کام کرنے والے خلیے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، سائنسدانوں کا یہ تجربہ مختلف بیماریوں کے علاج میں کافی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

مثلاً شوگر یعنی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے لبلبے کے خلیے بنا کر پرانے ناکارہ خلیوں سے تبدیل کیا جاسکتا یا اگر کسی شخص کی کوئی نس خراب ہوگئی ہے تو نس بنانے والے خلیوں کی مدد سے اسے بھی ٹھیک کیا جاسکے گا.

مریخ پر پانی کی دریافت - 2008

—فوٹو: ناسا

اگر سائنسدانوں کو کائنات کے کسی کونے میں پانی کا ثبوت مل جائے تو وہ اس چیز کے لیے مزید متجسس ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ زمین پر بسنے والے جانداروں کے لیے پانی سب سے اہم ہے، 2008 میں مریخ پر ناسا کی فیونکس نامی خلائی گاڑی نے کھدائی کی تو اسے سطح کے نیچے سفید رنگ کا پاؤڈر دکھائی دیا لیکن کچھ دنوں بعد جب اسی کھودی ہوئی جگہ کو دیکھا گیا تو وہ پاؤڈر اپنی جگہ پر نہیں تھا۔

پاؤڈر کی غیر موجودگی نے سائنسدانوں کو متجسس بنا دیا اور تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ وہ سفید پاؤڈر اور کچھ نہیں بلکہ جمی ہوئی حالت میں پانی تھا، اسی کے ساتھ مریخ پر پانی کے مزید ذخائر کی تلاش شروع ہوگئی اور آج ہمیں پتہ ہے کہ مریخ کے نیچے پانی موجود ہے اور اسی کے ساتھ اس بات کا بھی علم ہے کہ زمانہ قدیم میں مریخ پر بہتا پانی موجود تھا۔

کینسر کو سونگنے والے آلے کی تخلیق - 2009

—فوٹو: دی وائر

سال 2009 میں اسرائیل انسٹیٹیوٹ آف حنیفہ کے تحقیق دانوں نے ایسا آلہ بنایا جو پھیپڑوں کے کینسر کو سونگ لیتا ہے اور ڈاکٹروں کو اس کی تشخیص میں مدد دیتا ہے، یہ آلہ سونے کے نینو پارٹیکل کا استعمال کرتا ہے جو کینسر کے خاص خلیوں سے خارج ہونے والی بو سونگ لیتا ہے اور ان کے ہونے کا سگنل دے دیتا ہے۔

اس آلے کی تیاری سے پھیپڑوں کے کینسر کو اس کی ابتدائی حالت میں ہی زیر علاج لانے میں مدد ملی۔

پہلی بار لیب میں خلیے کی تیاری - 2010

—فوٹو: پاپ سائنس

جے کریگ ونٹر انسٹیٹیوٹ سے یہ خبر آئی کہ انہوں نے ایک ایسا خلیہ تیار کرلیا ہے جو تیار تو لیب میں ہوا ہے لیکن ایک عام جاندار بیکٹیریا کے خلیے کی طرح خود کو تقسیم کرکے اپنی نسل بڑھاتا ہے، اس میں سائنسدانوں نے کمپیوٹر کی مدد سے ڈی این اے کا ڈیزائن بنایا اور کیمکل کی مدد سے خلیہ بنا کر اسے زندگی دی۔

یہ تحقیق ہے تو نہایت حیران کردہ اور دلچسپ ہے لیکن اس پر بہت سے اخلاقی سوال اٹھائے جاسکتے ہے کیونکہ یہ "زندگی کو پیدا کرنے" جیسا ہے جوکہ بہت سے لوگ برا سمجھتے ہیں۔

زمین کی طرح کا پہلا سیارہ دریافت - 2011

—فوٹو: سی این این

فلکیاتی ماہرین ہمارے نظام شمسی سے باہر دوسرے ستاروں کے گرد سیاروں کی تلاش تو 1990 سے کر رہے ہیں لیکن 2011 کے وسط میں سائنسدانوں کو کیپلر22 بی نامی سیارہ ملا جو ہماری زمین سے تقریبا ڈھائی گنا زیادہ بڑا تو ہے ہی لیکن ہماری زمین کی طرح چٹانی بھی ہے، مزید یہ کہ یہ اپنے سورج سے اتنے فاصلے پر ہے کہ اگر اس پر پانی موجود ہوا تو وہ مانع حالت میں ہوگا، یہ نظام شمسی زمین سے تقریبا 587 نوری سال دور ہے.

ہگز بوزوں کی دریافت- 2012

—فوٹو: ایکسٹریم ٹیک

سال 2012 میں ہونے والی ہگزبوزوں نامی کوانٹم پارٹیکل کی دریافت نے سوئٹزرلینڈ میں واقع پارٹیکل اسلریٹر کے سائنسدانوں کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ یہ ایک ایسا پارٹیکل تھا جس کی تلاش سائنسدان کافی عرصے سے کر رہے تھے. ہگز پارٹیکل ایسے سب اٹامک (یعنی ایٹم میں موجود پارٹیکلز) کے طور پر جانا جاتا ہے جو کائنات میں موجود ہر مادے کے ساتھ جڑ کر اسے کمیت (ماس) دیتا ہے.

جتنی بڑی کوئی شے ہوگی اس کے ساتھ اتنے ہی ہگز پارٹیکل جڑے ہونگے، سائنسدانوں نے CERN میں دو پروٹونز کو ٹکرایا جس کے نتیجے میں ہمیں کچھ لپٹانز (الیکٹران کے خاندان کے پارٹیکلز) حاصل ہوتے ہیں، جس میں سب بڑا پارٹیکل ٹاؤ پارٹیکل(tau particle) ہوتا ہے یعنی اس کے ساتھ ہگز پارٹیکل زیادہ مقدار میں جڑے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے سائنسدان اسے دریافت کر پائے۔

یاد رہے کہ اسٹینڈرڈ ماڈل آف پارٹیکلز میں ہگز پارٹیکل اور کشش ثقل کا خیالی پارٹیکل 'گریوٹوں' ہی دو پارٹیکلز تھے جو ابھی تک دریافت نہیں ہوئے تھے لیکن ہگز پارٹیکل کی دریافت کے بعد اب گریوٹوں کی تلاش جاری ہے.

کلوننگ سے تیار کردہ پہلا انسانی بیضہ ۔ 2013

—فوٹو: پاپولر سائنس

کلوننگ سے تو سب بخوبی واقف ہیں کیونکہ یہ ایک ایسی تکنیک ہے جسے پچھلے 10 سال میں بہت سی جگہوں پر بحث کا موضوع بنایا گیا ہے، کلوننگ کا آسان مطلب کسی چیز کو کاپی کرنا ہے لیکن سائنسی اصطلاح میں کلوننگ سے مراد کسی ایک جاندار کے خلیے سے اسی طرح کا دوسرا جاندار بنانا ہے۔

شروع سے سائنسدانوں خاص طور پر بائیو ٹیکنولاجسٹ کی یہی کوشش رہی ہے کہ حیاتیاتی سائنس میں جدت لاکر انسانی نسل کو فائدہ پہنچایا جاسکے اور اسی خاطر سائنسدان اس کوشش میں ہیں کہ انسانی کلوننگ کی جائے کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات جب کسی عضو کے ٹرانسپلانٹ کی بات آتی ہے تو اکثر انسانوں کے جسم کی قوت مدافعت اس عضو کو خطرہ سمجھ کر اس کے خلاف انفیکشن کردیتی ہے لیکن 2013 میں سائنسدانوں نے انسانی خلیے کی کامیاب کلوننگ کا تجربہ کیا اور مستقبل میں اس تجربے سے کوئی بھی انسانی عضو لیبارٹری میں تیار کیے جانے کے امکانات ہیں۔

دنیا کی قدیم ترین 'سمجھ آنے والی' مصوری دریافت ۔ 2014

—فوٹو: نیچر

کئی سال تک یہی تصور کیا گیا کہ قدیم مصوری کا آغاز یورپ سے ہوا لیکن سائنسدانوں نے 2014 میں انڈونیشیا کی 'سلاویسی' نامی غار میں پتھر کی دیواروں پر بنے ایسے خاکے دریافت کیے جن کی عمر سائنسی عمل 'یورینیم ڈیٹنگ' کی مدد سے نکالی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ خاکے تقریبا 43 ہزار سال پرانے ہیں، یعنی یہ خاکے اس وقت کے ہیں جب انسانوں میں کھیتی باڑی اتنی عام نہ ہوئی تھی اور وہ ابھی تک لکڑی کے اوزاروں کا استعمال کرتے تھے.

ان خاکوں میں اس وقت کے انسان نما جانداروں کو کسی خنزیر اور ہرن نما جانوروں کے پیچھے بھاگتا دیکھا جاسکتا ہے جس کا مطلب یہ کہ اس وقت شکار کرنا عام تھا، اس دریافت کے بعد سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ خاکے دنیا کے قدیم ترین خاکوں میں تو نہیں لیکن ہاں دنیا کے قدیم ترین ایسے خاکوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں جنہیں دیکھ کر کہانی کی سمجھ آرہی ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ تب کے انسانوں نے ایسی مصوری کرنا سیکھی جو کسی دوسرے کو سمجھ آسکے۔

کائنات کے کنارے پر روشن بلیک ہول کی دریافت۔ 2015

—فوٹو: پی اے یونیورسٹی

سال 2015 کے آغاز میں سائنسدانوں نے ہمارے سورج سے تقریبا 13ارب گنا زیادہ بڑا بلیک ہول دیکھا جو کہ اپنے گرد کثیر تعداد میں مادہ لیے ہوئے ہے اور اسے چٹ کر رہا ہے، اس بلیک ہول کی کشش ثقل کی وجہ سے مادہ اس قدر رگڑ سے گرم ہوجاتا ہے کے بلیک ہول کے اطراف میں روشنی پیدا ہوتی ہے۔

سائنسدانوں نے بتایا کہ ایسی کہکشائیں جن کے بلیک ہول اتنے بڑے ہوں کہ مادے سے بہت زیادہ روشنی پیدا کریں انہیں "قوازار" کہتے ہیں، یہ قوازار اس کائنات کا سب سے روشن ہول ہے اور کائنات کے کنارے پر موجود ہے، یہ بلیک ہول زمین سے 13 ارب نوری سال دور ہے یعنی یہ بلیک ہول بگ بینگ ہونے کے 90 کروڑ سال بعد بنا۔

ثقلی موجوں کی حیرت انگیز دریافت۔ 2016

—فوٹو: پاپ سائنس

ویسے تو یہ ثقلی موجیں 2015 کے وسط سے سائنسدانوں کو موصول ہورہی تھیں لیکن 2016 کے آغاز میں سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ ثقلی موجیں دو بڑے بلیک ہول کے آپس میں ایک دم سے مل جانے کی وجہ سے پیدا ہوئیں، فلکیاتی اصطلاح میں ثقلی موجیں کائنات میں بڑے اجسام کے تصادم کے نتیجے میں زمان و مکاں کی چادر میں پیدا ہونے والی لہروں کو کہا جاتا ہے۔

یہ لہریں اربوں نوری سال کا سفر طے کر کے زمین تک پہنچتی ہیں، ان ثقلی موجوں کی دریافت کے بعد سے سائنسدانوں کو ان کے مختلف اقسام کا بھی پتہ چلا ہے جس میں کچھ موجیں بلیک ہولز کے ملنے، کچھ نیوٹران ستاروں کے تیزی سے گھومنے، کچھ زمان و مکاں کی چادر پر ڈگمگانے سے اور کچھ بڑے ستاروں کے پھٹنے سے بنتی ہیں۔

سال کے آغاز میں یہی ثقلی موجیں زمین پر محسوس کی گئیں لیکن ایک صدی پہلے مشہورِ زمانہ سائنسدان آئن اسٹائن نے اپنے ریاضی کے حسابات کے ذریعے یہ بتایا کہ ثقلی موجیں زمان و مکاں کی چادر پر روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں تو سائنسدان اس بات کے صحیح یا غلط ہونے پر تحقیق میں لگے ہوئے تھے کہ کیا واقعی یہ پیشگوئی حقیقت ہے یا پھر وہ حسابات غلط تھے؟

انسانی دماغ کی طرح کام کرنے والی کمپیوٹر چپ کی تیاری ۔ 2017

—فوٹو: ایکسپلور میکسر

انسانی دماغ تمام جانداروں میں سب سے ذہین سمجھا جاتا ہے جو کہ ریاضی کے مشکل سوالات سے لے کر ستاروں سے آگے تک کے خیالات سوچ لیتا ہے لیکن 2017 میں آئی بی ایم نامی امریکی انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی نے "ٹرو نارتھ" چپ/پروسیسر متعارف کروائی جو بالکل اسی طرح کام کرتی ہے جیسے انسانی دماغ اپنے اطراف کے بارے میں معلومات پراسیس کرتا ہے اور اس کے مطابق سگنل جاری کرتا ہے۔

یہ چپ کم توانائی کا استعمال کرتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں حسابات کرسکتی ہے جس کے ذریعے یہ چپ اس حد تک ڈیٹا دے سکتی ہے جیسے کہ اگر روشنی کی تیزی یا رنگ میں تبدیلی آئے تو یہ چپ اس بارے میں سگنل دے گی۔

دنیا میں پہلی بار جینیاتی طور پر ترمیم شدہ بچیوں کی پیدائش ۔ 2018

—اسکرین شاٹ یوٹیوب

یہ بات بہت حیرت انگیز ہے لیکن ہے بہت دلچسپ کہ سال 2018 میں چینی سائنسدان نے ایک جوڑے کا علاج کیا جس میں مرد ایچ آئی وی پازیٹو تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس جوڑے کی اولاد ہوئی تو اسے ایڈز ہونے کا خطرہ ہوگا۔

اس لیے سائنسدانوں کی ٹیم نے میاں اور بیوی دونوں کے جنسی خلیات (اسپرم اور بیضہ) لے کر انہیں لیب میں مکس کیا اور ایمبریو بننے کے بعد اس میں ایک ایسی ڈی این اے ایڈٹ کرنے والی پروٹین ڈالی جس نے اس بیضے سے بننے والی دو بچیوں لولو اور نانا کو ہمیشہ کے لیے اس مہلک مرض سے بچا لیا۔

اگرچہ یہ بچیاں ابھی تک بالکل صحت مند ہیں تاہم بعد ازاں سال 2019 کے آخر میں چینی حکومت نے مذکورہ تجربہ کرنے والے سائنسدان کو جیل بھیجا، سائنسدان پر الزام تھا کہ انہوں نے غلط طریقے سے تجربہ کیا اور اس سائنسدان کے تجربے پر کئی اخلاقی سوالات بھی اٹھائے گئے اور کہا گیا کہ اس سے انسانی نسل کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

'ایڈز' کی پہلی ویکسین تیار ۔ 2019

—فوٹو: انٹریسٹنگ انجنیئرنگ

ایڈز ایک جان لیوا مرض ہے جسے کچھ عرصہ پہلے تک لاعلاج مرض سمجھا جاتا تھا لیکن پھر سائنسدانوں نے 'بون میرو ٹرانسپلانٹ' کی تکنیک کا استعمال کیا جس سے ایڈز سے تحفظ تو فراہم کیا جاسکتا ہے لیکن یہ علاج بہت مہنگا ہے، اسی وجہ سے سائنسدان پھر سے اس کے لیے ویکسین بنانے میں جت گئے اور حال ہی میں خبر سامنے آئی کہ اسکریپس ریسرچ نامی امریکی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں کی جانب سے ایسی ویکسین تیار کرلی گئی ہے جو انسانی جسم میں جاتے ہی ایسی اینٹی باڈیز کو متحرک کرتی ہے جو ایڈز کے مرکزی وائرس یعنی 'ایچ آئی وی' کے ساتھ جڑ کر اسے بیماری کو پھیلانے سے روکتے ہیں جس کی وجہ سے مریض صحت یاب ہونے لگتا ہے۔

خیال رہے کہ سائنسی اصطلاح میں اینٹی باڈیز ایسے کیمیائی مادوں کو کہا جاتا ہے جو جانداروں کے جسم میں کسی بھی باہر سے آنے والے جراثیم سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔


سید منیب علی نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائیٹر ہیں اور ان کی کتاب "کائنات – ایک راز" اردو سائنس بورڈ کے زیرِطبع ہے۔ آپ اسٹروبائیولوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ انہیں علم فلکیات کا بہت شوق ہے اور اس کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے۔ ان سے muneeb227@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @muneeb227


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔