سال 2019ء دنیا کیلئے مشکل سال ثابت ہوا، اور مستقبل بھی اچھا نہیں
اگرچہ سال 2019ء بس ختم ہونے کو ہے، مگر افسوس یہ کہ سال ختم ہونے پر بھی دنیا پر بے یقینی کے سائے مکمل آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں، اور ان کے ختم ہونے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا۔
ٹیکنالوجی، انفارمیشن اور گلوبلائزیشن کے دور میں یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ دنیا بھر سے آئیڈیاز، انسانی صلاحیت، رقوم، سامان اور خدمات کی دنیا بھر میں نقل و حرکت اور فراہمی آسان ہوئی ہے، لیکن یہی آسانی مسائل کا سبب بن رہی ہے اور دنیا پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہوگئی ہے۔
امریکا کی قیادت میں قائم عالمی نظام دم توڑ رہا ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں سے لے کر سائبر جنگوں تک کئی طرح کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
حکومتیں اپنے عوام کی توقعات پوری کرنے میں ناکام ہیں۔ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ جو حکومتیں اپنے ملک میں غیر مقبول ہوجاتی ہیں وہ بیرونی دنیا اور ہمسایوں کے لیے بڑا مسئلہ بن جاتی ہیں، کیونکہ یہ حکومتیں عوام کی حمایت کے حصول کے لیے اور مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے دنیا کے ساتھ جھگڑے کھڑے کرتی ہیں اور پھر یہ جھگڑے بڑے حادثات کا سبب بن جاتے ہیں۔
چین کی ابھرتی معاشی اور فوجی طاقت، امریکا میں بڑھتی تقسیم، مشرق وسطیٰ کے بحران، یورپ میں قوم پرستی اور پاپولسٹ حکومتوں کا رجحان، دنیا بھر میں 7 کروڑ سے زائد بے گھر افراد اور ٹیکنالوجی و ماحولیات کی وجہ سے درپیش عدم استحکام کے مسائل اس وقت دنیا کو درپیش ہیں۔
- جنوبی بحیرہ چین میں فوجی کشیدگی کے خطرات،
- امریکا اور چین کے درمیان تجارتی اور ٹیکنالوجی کی جنگ،
- مشرق وسطیٰ میں ایران سے تصادم کے خطرات،
- سعودی عرب میں امریکی فوجی دستوں میں اضافہ اور اس کے تناظر میں امریکا کے اندر ایک اور بڑے دہشتگرد حملے کے خطرات،
- یورپی یونین کے لیے دردِ سر بنا ہوا اٹلی کی حکومت کے قرضوں کا بحران اور اطالوی حکومت کا یورپی یونین کے بجٹ اصولوں سے انحراف،
- یوکرین میں روس کی مداخلت اور جنگ کے امکانات،
- دنیا کی بڑی طاقتوں میں سائبر جنگ
یہ سب وہ امکانات و خطرات ہیں جو دنیا کو کسی بھی بڑے حادثے میں دھکیل سکتے ہیں اور دنیا کی سیاسی قیادت میں رابطوں کا فقدان ان بحرانوں کو گہرا کرنے میں کردار ادا کر رہا ہے۔
کمزور پڑتی اقوامِ متحدہ
بین الاقوامی اداروں کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہے، اقوام متحدہ کو رکن ممالک کی طرف سے واجب الادا رقوم کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں جنگوں اور قدرتی آفات سے بے گھر ہونے والوں کی مدد کے لیے اس ادارے کے پاس مناسب فنڈز نہیں۔ کثیرالقومی اداروں کو چھوڑ کر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کا چلن ہے۔
یورپی یونین کے مسائل
یورپی یونین کے اندر یونین مخالف سیاستدان مضبوط ہو رہے ہیں۔ پھر یورپی یونین کے اندر یورپی شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر اب اختلاف شروع ہوچکا ہے، تارکینِ وطن کا مسئلہ یورپی یونین کے ملکوں میں اختلاف کا بڑا سبب بن رہا ہے، روس کے ساتھ تعلقات بھی یورپی ملکوں کے اندر وجہ نزاع ہیں۔
کمزور پڑتا امریکا اور اس کے صدر ٹرمپ
70 سال سے کامیاب ترین فوجی اتحاد نیٹو کو ٹرمپ کی پالیسیوں سے خطرہ ہے، امریکا نے روس کے ساتھ جوہری میزائلوں کا معاہدہ بھی یکطرفہ ختم کردیا اور ماحولیات پر پیرس معاہدے سے بھی نکل چکا۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بھی ٹرمپ انتظامیہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں دنیا کا مستقبل غیر یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ مستقبل کے بحرانوں سے بچنے کے لیے ان حالات میں نئے معاہدوں اور نئے بین الاقوامی اداروں کی تشکیل کے امکانات بہت کم ہیں۔
اگرچہ امریکا واحد سپر پاور ہے لیکن امریکی خود اب اس بات پر متفق نہیں کہ دنیا میں ان کا کردار کیا ہونا چائیے؟ صدر ٹرمپ کو الزام دیا جارہا ہے کہ وہ اس کی وجہ ہیں، جبکہ ٹرمپ صرف ایک علامت ہیں اس کنفیوژن کی۔ اگر ٹرمپ دوبارہ منتخب نہیں ہوتے تب بھی دنیا اور اس میں امریکی کردار پہلے جیسا نہیں ہوگا۔
سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے 8 سال بعد امریکیوں نے بارک اوباما کو صدر کیوں چنا تھا؟ کیونکہ اوباما نے وعدہ کیا تھا کہ وہ عراق اور افغانستان کی جنگیں ختم کرے گا۔ یہی وعدہ ٹرمپ نے کیا کہ وہ جنگیں ختم کرکے فوج واپس لائیں گے اور امریکی ترقی پر توجہ دیں گے، پھر ٹرمپ پر الزام کیوں؟
امریکی دنیا کو چلانے کا عزم نہیں رکھتے، اس سے بھی پیچھے چلے جائیں یعنی 1992ء میں صدر کلنٹن نے سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور جنگوں پر اٹھنے والے اخراجات کو امریکا میں لگانے کا وعدہ کیا تھا۔
بطور سپر پاور امریکا دنیا کو چلانے کے حوالے سے ہمیشہ ہی ہچکچاہٹ کا شکار رہا، اور اسی ہچکچاہٹ نے دنیا میں طاقت کا خلا پیدا کیا۔ یورپ اپنے اقتصادی اور معاشی مسائل میں الجھا ہوا ہے، چین کے صدر شی جن پنگ نے چین کے نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا لیکن جب دنیا چلانے اور اس کا بوجھ اٹھانے کی بات آتی ہے تو چین بھی آگے نہیں بڑھتا۔
گلوبلائزیشن: نعمت یا زحمت؟
گلوبلائزیشن کی وجہ سے دنیا ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، دنیا بھر میں قومی تہواروں پر جو آتش بازی ہوتی ہے اس کا بڑا حصہ چین سے آتا ہے، دنیا بھر میں کسٹمر سروسز بھارت سے فراہم ہو رہی ہیں، کاروں کے پارٹس کئی ملکوں میں تیار ہوتے ہیں، 2 عشروں کے دوران ایک ارب سے زیادہ افراد گلوبل مڈل کلاس کا حصہ بنے، ترقی کی رفتار بڑھی لیکن اسی گلوبلائزیشن کی وجہ سے یورپ اور امریکا میں بے روزگاری بڑھ گئی، جبکہ کاروبار چین، لاطینی امریکا، جنوب مشرقی ایشیا اور سب سہارا افریقا کی طرف منتقل ہوئے اور کمپنیوں نے وہاں کا رخ کیا۔
آج جو امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جھگڑا ہے وہ اسی گلوبلائزیشن کا ایک ثمر ہے۔ اس سے پہلے حکومتیں کاروبار میں رکاوٹ نہیں بن رہی تھیں لیکن اب ملازمت کے مواقع کے لیے حکومتیں رکاوٹ بنیں گی۔
ٹیکنالوجی، انفارمیشن اور سائبر جنگ کے خطرات
ٹیکنالوجی کی وجہ سے پہلے ہی کئی پروفیشن داؤ پر لگے ہیں اس پر ملازمتیں اگر بیرونِ ملک منتقل ہوں گی تو سیاست اس کی راہ میں آئے گی۔ خوراک اور سروسز کی گلوبل سپلائی سب سے زیادہ متاثر ہوگی لیکن یہ اثرات فوری نہیں، کیونکہ جب تک کمپنیوں کو یہ نہیں لگے گا کہ اب سخت فیصلوں کے بغیر گزارا نہیں وہ کاروبار کو پہلے کی طرح چلانے کی کوشش کریں گی، لیکن بالآخر کمپنیاں خوراک اور سروسز کے شعبہ میں مقامی کسٹمرز کے لیے مقامی پیداوار پر مجبور ہوں گی۔
ڈیٹا اور انفارمیشن کے شعبہ میں بھی دنیا 2 حصوں میں بٹ رہی ہے۔ اس سے پہلے ورلڈ وائڈ ویب یا انٹرنیٹ کے لیے ایک ہی طرح کے اصول اور معیار تھے، لیکن اب امریکا اور چین 2 مختلف آن لائن سسٹم تشکیل دے رہے ہیں۔
امریکی انٹرنیٹ اور ایکو سسٹم نجی شعبہ کے پاس ہے جس پر امریکا کا مکمل کنٹرول نہیں، جبکہ چین کا ایکو سسٹم مکمل طور پر ریاستی کنٹرول میں ہے۔
یہ 2 انٹرنیٹ سسٹم مستقبل کی سائبر جنگ کا حصہ ہوں گے۔ یہ 2 انٹرنیٹ سسٹم دنیا کے 2 حصوں میں تقسیم کا سبب بنے گا، مستقبل کی دیوار برلن کہاں کھنچے گی؟ کیا یورپ امریکا کے ساتھ ہوگا؟ کیا یورپ کا ہر ملک انفرادی فیصلہ کرے گا؟ بھارت کہاں کھڑا ہوگا؟ جنوبی کوریا اور جاپان کی پوزیشن کیا ہوگی؟ ابھی اس کا اندازہ ممکن نہیں۔
امریکا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کیا مستقبل میں بھی نجی شعبہ کے پاس ہوگی یا پھر امریکا ٹیکنالوجی ملٹری کمپلیکس بنائے گا؟ اس کے لیے ابھی کچھ انتظار کرنا ہوگا۔
چین بمقابلہ امریکا
2019ء میں چین اور امریکا کی طرف سے ایک دوسرے کی مصنوعات پر اضافی ٹیکسوں کے نفاذ سے دوسری سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔اس جنگ کو ٹرمپ نے شروع کیا لیکن اسے ڈیموکریٹ پارٹی میں بھی حمایت حاصل ہے اور ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار الزبتھ وارن نے چین کے معاملے میں سخت مؤقف کی حمایت کی ہے۔
امریکا اور چین ٹیکنالوجی کی جنگ میں ہیں۔ ہواوے کے فائیو جی (5G) نیٹ ورک پر امریکا کے خدشات اور ہواوے پر امریکی پابندیاں اس کا ثبوت ہیں۔