جس کو جو جگہ ملی، جس سائز کی ملی، اس نے اپنی مرضی کے نقشے پر اپنا عالیشان یا غریبانہ مکان کھڑا کرلیا
خوف کے مارے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میں رُکے بغیر بائک تیزی سے بھگاتا ہوا اس کے قریب سے گزرتا چلا گیا۔ سڑک پہاڑیوں میں موڑ در موڑ گھوم رہی تھی اور میں بھی اپنی بائک کو لہراتا چلا جا رہا تھا۔ اس وقت میری موٹر سائیکل کے علاوہ دُور دُور تک کوئی گاڑی نظر نہیں آرہی تھی۔ اس تنہائی سے بھی میری گھبراہٹ میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اسی وقت مجھے محسوس ہوا کہ میرے پیچھے کوئی گاڑی آ رہی ہے۔ اس کی ہیڈ لائٹس کی ہلتی جلتی روشنی میرے قریب آکر پڑ رہی تھی۔ مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ میں اکیلا نہیں، میرے ساتھ کوئی اور بھی ہے۔ میں پُرسکون ہوا مگر بائک اسی رفتار سے دوڑاتا رہا۔ گاڑی ایک مخصوص فاصلہ رکھ کر میرے پیچھے پیچھے آتی رہی۔
یہ جو سڑک ہے، اس کی خاص بات یہ ہے کہ جب تک یہ چک شہزاد کا مین روڈ نہ آجائے اس وقت تک نہ اس کے دائیں طرف کوئی راستہ نکلتا ہے نہ بائیں طرف۔ اس کے دونوں اطراف میں جنگل ہے یا کھیت ہیں۔ یہ سیدھی مین روڈ پر آکر ختم ہوتی ہے۔ میں بائک چلاتا رہا اور سڑک پر اپنے اطراف میں پڑنے والی روشنی سے اندازہ لگاتا رہا کہ وہ گاڑی بھی میرے پیچھے پیچھے چلی آرہی ہے۔ حتیٰ کہ میں چک شہزاد کی ڈبل روڈ تک پہنچ گیا۔
اس جگہ کچھ پھل فروش کھڑے تھے اور ان کے ٹھیلوں پر روشنی تھی۔ یہ رونق دیکھی تو مجھے اطمینان ہوا اور میں نے بریک لگا کر بائک روک دی۔ بائک روکتے ہی میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا کہ وہ کونسی گاڑی ہے جس نے اس اندھیرے ویرانے میں میرا ساتھ دیا اور اپنی روشنی میں مجھے یہاں تک لے آیا۔ لیکن یہ کیا؟ میں پیچھے دیکھتے ہی اچھل پڑا۔ پیچھے تو دُور دُور تک صرف اندھیرا اور سناٹا تھا۔ میرے پیچھے تو کوئی گاڑی تھی ہی نہیں۔ یااللہ! پیچھے تو کوئی موڑ بھی نہیں آیا تو وہ گاڑی آخر کہاں گئی؟ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟
اگر میرے پیچھے کوئی گاڑی نہیں آئی، تو پھر وہ روشنیاں کیسی تھیں جو میری بائک کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں؟ یہ سوچ کر تو میں اور ڈر گیا۔ کیا میرا تعاقب کرنے والی وہ روشنیاں بھی آسیبی تھیں؟
بہرحال میں گھر پہنچ گیا۔ کچھ دن بعد میری ملاقات آصف سے ہوئی تو میں نے شکایت کی کہ دیکھیں اس دن مچھلی کھلانے کے چکر میں آپ نے مجھے دیر کروا دی اور پھر یہ پُراسرار واقعہ پیش آیا۔ آصف بھائی ہنسنے لگے۔
’چھوڑیں یار آپ تو خواہ مخواہ ہی ڈرتے ہیں۔ اس راستے میں تو ایسی کوئی بات نہیں۔‘
’کیا آپ کو واقعی اس راستے پر کبھی کچھ محسوس نہیں ہوا؟‘، میں نے پوچھا۔
’نہیں بھائی‘، انہوں نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔
لیکن اسی وقت آصف کا بڑا بیٹا سعد بولا ’ابو ایک دفعہ ہوا تو تھا‘۔
’کیا ہوا تھا؟‘، میں چونکا۔
’انکل میں اور ابو ایک رات اسی سڑک سے راول ٹاؤن جا رہے تھے، تو جو جگہ آپ بتا رہے ہیں اسی جگہ ہمیں ایک عورت کھڑی نظر آئی۔ گاڑی میں چلا رہا تھا۔ جب ہم قریب ہوئے تو اس عورت نے ہماری گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔ اسی وقت ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ زخمی ہے۔ اس کے کپڑوں پر جگہ جگہ خون کے نشانات لگے ہوئے تھے۔ ابو نے کہا گاڑی روک دو تو میں نے گاڑی روک دی۔ گاڑی رکتے ہی عورت نے تیزی سے پچھلا دروازہ کھولا اور فوراً اندر آ کر بیٹھ گئی۔‘
’خدا کے واسطے مجھے جلدی سے یہاں سے لے چلو‘، اس نے جلدی جلدی کہا۔ ’مجھے یہاں کچھ لوگ مار رہے تھے، میں ان سے کسی طرح جان چھڑا کر آئی ہوں۔ آپ لوگ مجھے روڈ تک پہنچا دیں۔‘
’ہم لوگ کچھ گھبرا گئے۔ میں نے بغیر کچھ کہے گاڑی چلا دی اور تیزی سے ڈرائیو کرتا ہوا چک شہزاد کی ڈبل روڈ تک آگیا۔ لیکن جیسے ہی ہم سڑک پر چڑھ کر راول ٹاؤن کی طرف مڑے تو اس نے گاڑی روکنے کا کہا۔ میں نے بریک لگا دیا۔ گاڑی رکتے ہی اس نے دروازہ کھولا اور نیچے اتر کر اندھیرے میں غائب ہوگئی۔ پتہ نہیں کیا چیز تھی؟ ابو کتنی پُراسرار تھی وہ؟ انکل کو بھی تو اسی جگہ یہ واقعہ پیش آیا ہے۔‘
سعداللہ نے بات ختم کی اور میں دونوں باپ بیٹے کا منہ دیکھتا رہا۔ ان کے منہ سے یہ بات سن کر میں نے طے کرلیا کہ آئندہ کبھی بھی اس راستے سے رات کے وقت نہیں گزروں گا۔
لال کوٹھی پر بھٹکتی روح کراچی بہت بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ آپ جتنا بھی مبالغہ کرکے بتائیں، لوگ یقین کرلیں گے۔ ڈیڑھ کروڑ، 2 کروڑ، 3 کروڑ جو چاہیں کہہ لیں چل جائے گا۔ لیکن کراچی شروع سے ایسا نہیں تھا۔
پاکستان بننے سے پہلے یہ ایک چھوٹا سا شہر ہوا کرتا تھا۔ اس کی آبادی 50، 60 ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد چونکہ یہ شہر ملک کا دارالحکومت بنا اور بندرگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں روزگار کے مواقع بھی بہت تھے، اس لیے نہ صرف بھارت سے آنے والے مہاجرین، بلکہ پورے پاکستان سے لوگوں نے اس شہر کا رخ کیا۔ پھر اس شہر میں کوئی ایسی خاص بات بھی ہے کہ جو یہاں آتا ہے وہ اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ شہر کی آبادی تیزی سے بڑھنا شروع ہوئی اور بڑھتی بڑھتی کروڑوں تک پہنچ گئی۔
تو بات یہ ہے کہ اس کروڑوں کے شہر کراچی میں جہاں بہت سارے انسان بستے ہیں، جہاں ان انسانوں کی بہت سی کہانیاں ہیں، وہیں کچھ ایسی پُراسرار اور غیر مرئی مخلوقات بھی ہیں کہ جن کی کہانیاں لوگ سناتے ہیں۔ انہی مافوق الفطرت کہانیوں میں سے ایک کہانی میں آپ کو سناتا ہوں۔
کراچی کی مرکزی سڑک شارع فیصل، جو پہلے ڈرگ روڈ کہلاتی تھی، اس پر سردیوں کی راتوں میں بھٹکنے والی ایک روح کی کہانی بہت مشہور ہے۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی روح ہے جو دسمبر کی یخ بستہ اور ویران راتوں میں ڈرگ روڈ پر یعنی شارع فیصل پر لال کوٹھی اسٹاپ کے قریب آدھی رات کے وقت لوگوں کو ٹہلتی ہوئی نظر آتی تھی۔ اب تو اس شہر میں اتنا ٹریفک، اتنا شور اور اتنی افراتفری ہے کہ اس بیچاری کی روح اب شاید ہی کسی کو نظر آئے، لیکن کئی سال پہلے وہ کسی نہ کسی کو ہر سال نظر آجایا کرتی تھی۔
ہوتا یہ تھا کہ رات گئے کوئی ٹیکسی ڈرائیور یہاں سے گزر رہا ہوتا تو اسے روڈ کے کنارے فٹ پاتھ پر ایک ایسی لڑکی کھڑی نظر آتی کہ جس کی گردن سے خون بہہ رہا ہوتا۔ وہ لڑکی ٹیکسی والے کو ہاتھ دیتی ہے تو وہ فوراً رک جاتا ہے اور لڑکی کا خون بہتا دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے۔ وہ اس سے کہتا ہے ’باجی آپ کو کہاں جانا ہے؟ اور یہ کیا ہوا ہے آپ تو بہت زخمی ہیں۔ آپ کو کسی گاڑی نے مارا ہے؟‘
عبیداللہ کیہر
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔