جھمپیر، جہاں پہلے میلے تھے، اب صرف ویرانی ہے
جھمپیر، جہاں پہلے میلے تھے، اب صرف ویرانی ہے
اس دھرتی پر جو مخلوق بستی ہے اور پھر ذہن کی بے پناہ وسعتوں میں کہیں شعور کا دیپ بھی جلتا ہے۔ وہ شعور آپ کو اپنے گزرے ماہ و سال سے رشتہ توڑنے نہیں دیتا بلکہ تلقین کرتا ہے کہ اپنی جڑوں کی آبیاری میں کوئی کمی مت رہنے دو کیونکہ اگر گزرے وقتوں کی میٹھی اور تلخ یادوں کو اندر سے کُھرچ کر الگ کردیں گے تو بچے گا کیا؟ فقط ایک تم؟ تو ایک تم سے کچھ نہیں بنتا۔ رونے کے لیے بھی 2 آنکھیں چاہئیں اور تالی کے لیے بھی 2 ہاتھوں کی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے۔
چنانچہ قافلوں کے سوا منزلوں پر پہنچنے کا خواب دیکھنا ایک عبث ہی ہے کہ اپنی جڑیں ہی ہم کو توانائی دیتی ہیں، سو جڑوں کی قدر کرنی چاہیے کہ ہم ان کی وجہ سے ہی زیست کے پُرنور اور پُرسوز سے گیت گا پاتے ہیں۔
ٹھنڈی ہوائیں شمال سے بہتی ہوئی آتیں ہیں، ٹھنڈک کا احساس دلاتی ہیں اور جنوب کی طرف نکل جاتیں ہیں۔ میں مکلی قبرستان کے شمال میں جام نظام الدین سموں کی آخری آرام گاہ کے قریب شمال کی طرف کھڑے پیلو کے درخت کے پاس کھڑا تھا۔ نیچے خشک ہوچکا دریائے سندھ کا قدیم بہاؤ تھا۔ وہاں سے آپ اگر شمال کی طرف دیکھیں تو کہرے کی وجہ سے دھند کی ایک تہہ سی بچھی ہوئی ہے۔ اس تہہ میں کیرتھر پہاڑی سلسلے کی وہ پہاڑیاں بھی ہیں جہاں انسان نے اپنی ابتدائی منزلیں طے کیں۔
اگر آپ یہاں کھڑے ہوکر 20 ہزار برس پیچھے چلے جائیں تو آپ کے سامنے منظرنامہ کچھ یوں گا کہ کیرتھر سلسلے کی کچھ پہاڑیاں ہیں اور سمندر کا نیلا پانی، پھر گزرتے وقت کے ساتھ سمندر کو دریائے سندھ کا میٹھا پانی پیچھے دھکیلتا جاتا ہے اور سمندر کے نیلے پانی کی جگہ دریا کا مٹیالا پانی آجاتا ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ جہاں میٹھا پانی بہتا ہے وہاں حیات کے متنوع رنگ جنم لیتے ہیں۔
یحییٰ امجد لکھتے ہیں کہ ’یورپ اور برِصغیر پاک و ہند میں جتنے بھی حجری ادوار کے اوزار ملے ہیں وہ اکثر و بیشتر دریاؤں کے قریبی میدانوں سے ملے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دریاؤں کے قریب اونچی اور خشک جگہوں پر رہتا تھا۔ گوکہ یہ تصور کرنا تو مشکل ہے کہ وہ پناہ گاہیں بناکر مستقل رہائش رکھتا تھا لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وہ دن بھر کی آوارہ خرامی کے بعد رات کو دریا کنارے درختوں پر یا دیگر اونچے ٹھکانوں پر قیام کرتا ہوگا، اور ان کا سارا سفر دریاؤں کے قریب قریب رہتا ہوگا‘۔