12ویں عالمی اردو کانفرنس اور ہمارے رویے
پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے ہم نے یہ دیکھا کہ ادبی و ثقافتی میلوں ٹھیلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انہی میں سے ایک بہت بڑی ادبی سرگرمی، پاکستان کے شہر کراچی میں ہونے والی ’عالمی اردو کانفرنس‘ ہے۔
رواں سال 12ویں مرتبہ یہ ادبی میلہ سجایا گیا اور اس کی دیکھا دیکھی ملک بھر میں دوبارہ سے ادبی میلوں کے انعقاد کا رواج چل نکلا۔ 2007ء سے شروع ہونے والی اس کانفرنس نے بہت سارے نشیب و فراز دیکھے، مگر یہ تاحال اپنے مثبت اور منفی پہلوؤں سمیت اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
ماضی میں اس کانفرنس کے تناظر میں بہت تفصیل سے میں لکھ چکا ہوں جسے قارئین پڑھ سکتے ہیں۔ اس لیے میں وہ باتیں یہاں نہیں دہرا رہا کہ کس طرح یہ ایک کامیاب ادبی کانفرنس کے طور پر شروع ہوئی اور پاکستان میں اس نے اپنے اچھوتے اور منفرد رنگ کی وجہ سے مقبولیت کی حدوں کو چُھو لیا۔ لیکن پھر کچھ سال یہ کانفرنس یکسانیت کا شکار بھی ہوئی، جس کی وجہ سے انتظامیہ کو علمی و ادبی حلقوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
مگر اچھی بات یہ کہ اس کانفرنس پر ہونے والی تنقید کو مثبت انداز میں لیا گیا اور نشاندہی پر کافی پہلوؤں سے بہتری لائی گئی۔ اب گزشتہ کچھ برسوں سے یہ کانفرنس علم و ادب کے تشنگان کو سیراب کر رہی ہے، لیکن کچھ نکات ایسے ہیں جن پر اب بھی بات کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے، اور اگر ان کی طرف بروقت توجہ کرلی جائے تو اس کے معیار کو متاثر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
میں اسی تناظر میں رواں برس کے حوالے سے یہاں کچھ گزارشات قلم بند کر رہا ہوں۔
گوشہ مندوبین کی سہولت
اس کانفرنس میں سب سے زیادہ اہم نکتہ جس نے مندوبین کو متاثر کیا، وہ کانفرنس کے انتظام و انصرام کا معاملہ تھا۔ کانفرنس میں مندوبین کے لیے ’گوشہ مندوبین‘ کا اہتمام کیا گیا، جس کی وجہ سے قلم کاروں کو یہ سہولت میسر آئی کہ وہ جب چاہیں، آرام کی غرض سے یا کھانا کھانے کے اوقات میں وہاں تشریف لے جائیں۔
اعلیٰ معیاری کھانے اور بہترین انتظام کی وجہ سے مندوبین بہت مطمئن اور شاد دکھائی دیے۔ اسی طرح مندوبین کو ہوائی اڈے سے لانے اور واپس پہنچانے کا بندوبست بھی خوب تھا، جس کے لیے کسی کو چنداں پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پھر ان کی رہائش کا بھی اعلیٰ بندوبست کیا گیا۔ ان اقدامات سے مندوبین کو جو اطمینان نصیب ہوا، وہ قابلِ دید تھا۔
بیک وقت مختلف سرگرمیاں
کانفرنس میں شرکا کے لیے کھانوں اور کتابوں کے اسٹالز کا اہتمام بھی کیا گیا۔ پہلی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ آرٹس کونسل کی حدود میں مختلف مقامات پر سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا۔ ایک طرف پہلے آڈیٹوریم میں کوئی سیشن جاری تھا، تو دوسرے آڈیٹوریم میں بھی بیک وقت کچھ نہ کچھ ہو رہا تھا۔ شام کے اوقات میں سیشن اور اسکریننگ کے لیے لان کا استعمال بھی بخوبی کیا گیا۔
مختلف زبانوں کی سیشنز
اردو زبان کے ساتھ ساتھ بلوچی، پشتو، سندھی اور پنجابی ثقافت و ادب کے لیے بھی سیشن مختص کیے گئے، بلکہ جاپان اور پاکستان کے ادبی و ثقافتی روابط پر بھی سیر حاصل سیشن ہوا، جہاں جاپان میں اردو زبان کی تدریس کے تقریباً 115 سال کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی اور جاپانی پروفیسر’سویامانے‘ نے اس تاریخ پر شستہ اور سلیس اردو میں سیر حاصل گفتگو کی اور اپنی پریزینٹیشن کے ذریعے اس تاریخ سے حاضرین کو بخوبی روشناس بھی کروایا۔