پُرتعیش زندگی کے مالک فلم ساز کی بیٹی ڈھابہ کیوں چلا رہی ہے؟
میں اسے دکھی داستان نہیں بلکہ ہار نہ ماننے کی حوصلہ افزا کہانی سمجھتا ہوں۔ درد تو ویسے بھی گلی گلی ہمیں مختلف شکلوں میں جابجا نظر آتے ہی ہیں، مگر حوصلہ کم کم ہی دکھائی دیتا ہے۔
اب تو اس افراتفری سے بھرپور زمانے میں لوگ اکثر دوسروں کے مسائل اور تکالیف سُن سُن کر اُکتا جاتے ہیں، اور ڈرتے ڈرتے بس اس جملے کا انتظار کررہے ہوتے ہیں کہ مسائل سنانے والے کب کہیں گے کہ ان کی مالی مدد کی جائے۔ لیکن ذیل میں جو کہانی میں آپ کو بتانے والا ہوں اس میں مسائل تو ہیں لیکن آخر میں آپ سے مدد کی اپیل نہیں کی جاتی۔
ہاں مگر یہ ضرور ممکن ہے کہ کہانی کے انجام پر آپ کے دل میں ایک میٹھی سی چُبھن کا احساس پیدا ہو۔ زندگی کی 2 مختلف انتہائیں دیکھنے والی بنٹی کی کہانی بھی ایسی ہی ہے!
50 برس سے زائدالعمر افراد نے ہمارے ملک میں سنیما کا عروج ضرور دیکھا ہوگا، ایسا عروج جب لوگ ٹکٹ گھروں کی کھڑکیوں کے سامنے قطار اور ہجوم لگائے کھڑے ہوتے اور فلم شو کے ایک ٹکٹ کے لیے کچھ بھی کر گزر جانے کے لیے تیار ہوتے۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ان وقتوں میں فلمی صنعت سے وابستہ لوگوں نے پاکستانی فلم بینوں کے لیے شاہکار فلمیں تخلیق کیں۔
پاکستان کو کامیاب فلمیں دینے والوں میں ایک نام ایم اے رشید کا بھی ہے۔ ایم اے رشید نے پاٹے خان کے نام سے پہلی فلم بنا کر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ اپنے دور کے کامیاب ہدایتکار، فلمساز اور مکالمہ نگار تھے اور عالیشان گھر، بڑی گاڑیاں اور ایک پُرتعیش زندگی کے وہ مالک تھے۔