کیرولینسکا انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں 12 لاکھ خواتین کا ڈیٹا دیکھنے کے بعد یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ان قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے سر جسم کے مقابلے میں بہت چھوٹے بھی ہوسکتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق غذائی کمی اور ذہنی تناﺅ کا باعث بننے والے ہارمونز میں اضافے غذائی امراض کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں جو بچے کی نشوونما میں مسائل کا باعث بنتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ کھانے کی رغبت ختم ہوجانا یا ہر وقت بھوک لگنے جیسے امراض کا شکار حاملہ خواتین کو دوران حمل ڈاکٹر کے پاس اکثر اسکریننگ کے لیے جانا چاہیے۔
غذائی امراض دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کرتے ہیں اور ان میں اکثر بلوغت کی عمر میں داخل ہونے والی یا ماں بننے کی عمر کی خواتین ہوتی ہیں۔
یہ پہلے ہی ثابت ہوچکا تھا کہ غذائی عادات میں مسائل ناقص نشوونما، قبل از وقت پیدائش، کم پیدائش وزن، نظام تنفس کے امراض اور دیگر کا باعث بن سکتے ہیں، مگر اس حوالے سے زیادہ بڑے پیمانے پر تحقیق نہیں کی گئی تھی۔
اس نئی تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما سائیکاٹری میں شائع ہوئے اور اس میں ان ماﺅں کا جائزہ لیا گیا جنہوں نے سوئیڈن میں 2003 سے 2014 کے دوران بچوں کو جنم دیا۔
ان خواتین میں سے 28 سو کے قریب میں کھانے کی رغبت ختم ہونے کا عارضہ تشخیص ہوا جبکہ 14 سو میں بہت زیادہ بھوک کی شکایت سامنے آئی تھی، 34 سو کے قریب خواتین میں ENDOS نامی غذائی عارضہ تھا جو کسی معمول کی کیٹیگری میں فٹ نہیں ہوتا۔
تحقیق میں بتایا کہ ہر طرح کے غذائی امراض سے قبل از وقت پیدائش، بچوں کا سر چھوٹا رہ جانا اور دوران حمل بہت زیادہ الٹیاں کرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
کھانے کی خواہش کم یا ختم ہوجانے سے خواتین میں قبل از وقت پیدائش کا خطرہ 60 فیصد جبکہ بہت زیادہ بھوک لگنے کی شکایت پر 30 فیصد اور ENDOS کے نتیجے میں 40 فیصد تک بڑھ جاتا۔
دوران حمل کھانے کی خواہش ختم ہونے سے بچوں کا سر چھوٹا رہنے کا خطرہ لگ بھگ دوگنا بڑھ سکتا ہے جبکہ زیادہ بھوک لگنے پر 60 فیصد اور ENDOS میں 40 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
بھوک نہ لگنے یا ENDOS کے نتیجے میں حاملہ خواتین میں خون کی کمی یا انیمیا کا خطرہ بھی دوگنا بڑھ سکتا ہے۔
محققین کے مطابق دوران حمل ان غذائی امراض سے پیچیدگیوں کا امکان تو ہوتا ہی ہے مگر ایسی خواتین جن میں یہ امراض حمل سے ایک سال پہلے سامنے آئے ہو، ان میں بھی پیچیدگیوں کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔