’روزانہ سوا سیر سونا دینے والے کارونجھر کو بچانا ہوگا‘
یہ تحریر ابتدائی طور پر نومبر 2019ء میں شائع ہوئی جسے قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جارہا ہے۔
15 نومبر کو زیادہ تر سندھی اخبارات کی شہ سرخیوں میں یہ خبر چھپی کہ ’غیر موسمی بارش کے دوران بجلی گرنے سے تھرپارکر کے 21 باشندے ہلاک، 130 سے زائد بکریاں، بھیڑیں اور اونٹ بھی آسمانی بجلی گرنے سے مرگئے‘۔
اس خبر کو 2 زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے: پہلا یہ کہ قدرتی آفات ہیں، انسان کیا کرسکتا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ ’فطرت سے اُلجھو گے تو فطرت کسی نہ کسی صورت میں اپنا غصہ ضرور نکالے گی۔ یہ غصہ دراصل ماحولیاتی تبدیلی ہے۔
بے موسم شدید بارشیں، گرمیوں اور سردیوں کا بڑھ جانا، گلیشیئروں کے پگھلنے میں تیزی اور سمندر میں پانی کی سطح میں اضافہ، سونامی جیسے طوفان و بارشی سلسلے سب کے سب قدرت کی ناراضی کا مظہر ہیں، جس کے اسباب پیدا کرنے میں ہم نے کوئی کَسر نہیں چھوڑی۔
ہم جو نام نہاد ترقی کے طُرم خان ہیں، جو پینے کے پانیوں میں کارخانوں کا اخراج بہانے، شہروں کے گندے پانی کا رخ جھیلوں کی طرف کرنے اور سمندروں کو پلاسٹک اور زہریلے اخراج سے بھرنے کے بعد اپنی ترقی پر نازاں بنے پھرتے ہیں۔ مگر اس خبر میں ایک پہلو بھی پوشیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی۔ اس مضمون کے ختم ہونے سے پہلے آپ پر یہ پہلو آشکار ہوجائے گا۔
چند سال پہلے صحرائے تھر کی سیر کرنے کو جی چاہا تو میں عمرکوٹ، اسلام کوٹ، گوڑی مندر، سوندر، مالسریو اور ویراواہ سے ہوتا ہوا ’کارونجھر‘ تک جا پہنچا تھا۔ تھر میں چلتے چلتے جیسے ہی آپ ویراواہ سے جنوب کی طرف بڑھتے ہیں تو اچانک سے سارا لینڈ اسکیپ ہی بدل جاتا ہے۔ زمین سپاٹ ہوجاتی ہے، چند قدم اور چلتے ہیں تو سامنے دھند میں لپٹا وہ پہاڑی سلسلہ نظر آتا ہے جس کے بارے میں ایم ایچ پنھور صاحب کہتے ہیں کہ ’ننگرپارکر کی یہ چٹانی پہاڑیاں، سندھ میں سب سے پہلے گرینائٹ کا روپ لینے والی قدیم پہاڑیاں ہیں۔ جن کی ارتقا کی تاریخ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں برسوں پر محیط ہے‘۔
ان گزرے وقتوں نے اس طلسماتی پہاڑی سلسلے کو بڑے نازوں سے پالا ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں ہاکڑو کا بہاؤ بہتا تھا جو پنجاب سے نکل کر عمرکوٹ کے مشرق سے بہتا ہوا اسی مقام پر سمندر سے جا ملتا تھا، اور یہ ہاکڑو ہی تھا جس کے کناروں پر دریائے سندھ سے زیادہ بستیاں آباد تھیں اور ننگرپارکر ان زمانوں کا شاندار بندرگاہ اور جنگلات سے گھرا علاقہ تھا۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو آج تھر میں ’کول مائننگ‘ بھی یقیناً نہ ہورہی ہوتی۔
’رامائن‘ کے زمانے میں بھی ہاکڑو کا یہ بہاؤ اپنے جوبن پر تھا۔ یہاں گھنے جنگل تھے۔ مشرق جنوب میں واقع قریبی شہروں میں جنگوں اور سواری کے لیے مطلوب ہاتھی یہیں سے پکڑ کر لے جائے جاتے تھے۔
تاریخ کے اوراق یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب ’کوروؤں‘ نے ’پانڈوؤں‘ کو 13 سال کے لیے ملک بدر کیا، تو پانچوں پانڈوؤں نے کچھ عرصہ کارونجھر میں پڑاؤ ڈالا تھا۔ چنانچہ ان تمام وجوہات کی وجہ سے یہ پہاڑی سلسلہ 108 تاریخی، مذہبی اور ثقافتی مقامات کا امین بنا ہوا ہے۔ یہاں کے باسیوں کا اس پہاڑی سلسلے سے جذباتی، مذہبی اور ثقافتی تعلق قائم ہے، یہی وجہ ہے کہ قرب و جوار میں 45 کے قریب چھوٹی بڑی پہاڑیوں میں سے ہر ایک پہاڑی کا اپنا الگ نام ہے، جیسے ساکر ویری، وادھاڑائی، ڈونگری، کاڑکی، ووڑاؤ، سانکڑ، آسالڑی، کھارڑیوں، دھناگام، راوتو، رامسر وغیرہ۔
ہم نے چند پلوں اور سطروں میں صدیوں کی تاریخ کا سفر طے کرلیا لیکن وقت اپنے اصولوں کا پکا ہے اور ایک ایک پل گنتا ہے اور زمانے کا سفر کرتا ہے، لہٰذا انسان اور کارونجھر کا ساتھ ہزارہا برسوں سے گہرا ہوتا چلا گیا۔
ننگرپارکر، اس کارونجھر کے دامن میں ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے۔ پرسکون اور خاموش گلیاں اس کی پہچان ہیں۔ یہ ایک قدیم شہر ہے اور یہ ہند سے سندھ کی طرف جانے کا ایک قدیم راستہ بھی رہا ہے۔
بہت سارے سیاحوں کے سفرناموں میں، ننگرپارکر اور کارونجھر ایسے جڑے ہوئے ہیں جیسے تاج میں ہیرے جَڑے ہوتے ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ پہاڑی ایک ہزار فٹ بلند ہے جبکہ چند کا ماننا ہے کہ اس کی بلندی 1100 فٹ ہے۔ یہاں فطرت کا سادگی بھرا حسن جابجا پھیلا نظر آتا ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ ’یہاں کی زمین سبزے، درختوں اور جڑی بوٹیوں کے حوالے سے کتنی ذرخیز ہے؟
تو جواب ملا کہ ’یہاں کم و بیش 50 مختلف اقسام کے درخت اگتے ہیں، جن میں سے کچھ ایسے ہیں جو صرف اسی زمین کا خاصہ ہیں جبکہ 100 کے قریب جڑی بوٹیوں اور چارے کی مختلف اقسام اُگتی ہیں۔ یہ علاقہ پرندوں کی 50 سے زیادہ اجناس اور جانوروں کی 30 سے زائد نسلوں کی آماجگاہ بھی ہے‘۔
بلاشبہ یہ علاقہ فطرت کا میوزیم ہے جس میں کچھ بھی مصنوعی نہیں۔ کارونجھر سے متعلق صدیوں سے مشہور کہاوت میں شک کی کوئی گنجائش نہیں جو کچھ یوں ہے کہ ’کارونجھر میں روزانہ سوا سیر سونا پیدا ہوتا ہے۔‘
اس کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ اس پہاڑی سلسلے سے روزانہ کی بنیاد پر جتنی مقدار میں شہد، جڑی بوٹیاں، لکڑی، گگر (ایک درخت سے نکالا گیا گوند، جس سے لوبان، اگربتیاں اور دوسری ادویات بنتی ہیں) حاصل ہوتی ہے وہ لوگوں کی ایک بڑی آبادی کے لیے روزگار کا بندوبست کرنے کے لیے کافی ہے۔
اس پہاڑی سلسلے سے کئی لوک کہانیاں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ لوگ نسل در نسل اپنے بچوں کو یہ کہانیاں چاندنی راتوں میں سناتے چلے آرہے ہیں۔
کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر اس پہاڑی کی کچھ ایسی تصاویر اور ویڈیوز شیئر ہونا شروع ہوئیں، جن میں اس لاکھوں برس پرانے گرینائٹ کے پہاڑ کو مختلف حصوں میں کاٹا جا رہا تھا۔
میں نے سوچا یہ کیسے ممکن ہے کہ قدرت کی خوبصورت عنایت کو محض ہم کچھ لاکھوں یا کروڑوں میں بیچ ڈالیں۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ، مور خوبصورت پرندہ ہے تو اسے بندوق سے مار ڈالو۔ مطلب یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی نا۔
دیکھتے دیکھتے مظاہرے ہونے لگے۔ پھر 14 نومبر 2019ء کو سندھ ہائی کورٹ نے گرنائیٹ کو کاٹنے پر روک لگانے کا حکم جاری کیا اور یوں اس خبر نے حقیقتاً مایوسی کو مدھم کرنے میں مدد فراہم کی۔
مگر کٹائی کا سلسلہ کیسے شروع ہوا؟ کیا یہ سب کچھ اچانک ہی ہونے لگا تھا؟
اب ان سوالوں کا جواب کارونجھر تو دینے سے رہا، لہٰذا میں نے وہاں کے چند مقامی افراد سے رابطہ کیا اور صورتحال کو تھوڑا گہرائی سے جاننے کی کوشش کی۔
مجھے بتانے کے لیے ان کے پاس ایک طویل کہانی تھی۔ فطرت کے اس تحفے کو تار تار کرنے کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں بلکہ اس عمل کی تاریخ تو کم وبیش 40 برسوں پر محیط ہے کہ یہاں سے کچھ نہ کچھ نکالنے کی لیزیں تو 1976ء سے دی جاتی رہی تھیں۔
دہائیوں پہلے چونکہ راستے کچے اور ریت کے ٹیلوں کی وجہ سے مشکل تھے لہٰذا اس طرف کسی نے خاص توجہ ہی نہیں دی اور یوں بیچارا کارونجھر نظروں سے اوجھل اور بڑی حد تک محفوظ رہا۔ پھر 2006ء میں پکے راستے ترقی کو اپنے ساتھ لے آئے ساتھ میں ان ٹرکوں کا آنا جانا بھی زیادہ ہوگیا جن پر اس بچارے پہاڑ کے حصے لاد کر کراچی پہنچانے جانے لگے۔
کہتے ہیں کہ کچھ دہائیوں پہلے اس علاقے میں ’مقیم کنبھار‘ نامی ایک سماجی کارکن کافی مشہور تھا۔ قدرت نے عاجزی اور شقفت و محبت کا سرمایہ کچھ زیادہ ہی اس کی جھولی میں ڈال دیا تھا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خود کو ’فقیر‘ کا لقب دیا تھا اور لوگوں میں بھی وہ ’فقیر مقیم کنبھار‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔
مقیم کنبھار سماجی کارکن ہونے کے ساتھ لوک روایات اور لوک شاعری سے زبردست حد تک شغف اور اس حوالے سے علم و فراست رکھتے تھے۔ وہ اپنی آخری سانس تک اس کاٹ کوٹ کے خلاف سرگرم رہے۔ جہاں موقع ملتا وہاں اپنی دھرتی کے وسائل کے تحفظ کے لیے تقاریر کیا کرتے۔ لیکن پھر ان کی انفرادی جدوجہد 2011ء میں ان کی وفات کے ساتھ تمام ہوگئی۔
کہتے ہیں کہ باپ کا ورثہ اولاد کا نصیب ہوتا ہے۔ میں نے مقیم فقیر کے بیٹے خلیل کنبھار، جو اچھے شاعر اور کالم نگار بھی ہیں، سے جب اس حوالے سے بات کی تو انہوں نے معقول دلائل اور قانونی بنیادوں پر میرے سوالوں کے بھرپور جوابات دیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اگر فقط ایک عام سا پہاڑ ہوتا تو یقیناً ہم اتنے جذباتی نہ ہوتے۔ یہ یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے ذریعہ معاش کے ساتھ، جنگلی حیات کی پناہ گاہ بھی ہے۔ فطرت کی ایک مخصوص تارپود ہے جو فقط یہاں پر ہوتی ہے۔ تہذیب یافتہ دنیا کے قانون کے مطابق، اس جنگلی حیات کی زندگی بھی انسانوں جتنی ہی اہم ہے۔ فطرت کے بُنے ہوئے اس ماحول میں اگر کوئی خلل ڈالتا ہے تو ہم اسے فطرت دشمن ہی کہیں گے۔ ماضی قریب میں جب ’چوڑیو‘ پہاڑی پر کٹائی کا کام شروع کیا گیا، تو وہاں کے سماجی کارکن ویرجی کولھی (جو اس وقت انسانی حقوق کے صوبائی مشیر بھی ہیں) نے سپریم کورٹ میں اس کے خلاف فریاد داخل کی، جس پر 2015ء میں سپریم کورٹ نے ڈپٹی کمشنر تھرپارکر کو حکم دیا کہ، یہ پہاڑی کاٹنے کا کام فوری طور پر بند کردیا جائے اور کام بند ہوگیا۔
’پھر ’کھارسر‘ کے قریب کارونجھر کو کاٹنے کا کام شروع ہوا۔ اس کٹائی سے متعلق یہ اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ پتھر کاٹنے والی کمپنی کے پاس لیز نہیں ہے لیکن اس کے پاس کوہِ نور کمپنی کی سب لیز ہے، واضح رہے کہ کوہِ نور کمپنی کو یہ لیز وفاقی حکومت کی جانب سے دی گئی ہے، جبکہ حکومتِ سندھ کے ’مائننگ کنسیکشن آرڈر‘ کی شق 25 کے مطابق، کارونجھر کی ساری لیزیں رد کی ہوئی ہیں۔
دوسری طرف سندھ کے صوبائی وزیر مائینز نے انکوائری کے لیے لیٹر جاری کیا ہے کہ ’جو غیر قانونی پتھر کاٹ کر اٹھا رہے ہیں ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا‘۔
ارے بابا، جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم اور صوبہ سندھ کے قانون کی رو سے کارونجھر سے پتھر اٹھانا غیر قانونی قرار دیا گیا ہے تو آپ کس کو قانونی یا غیر قانونی قرار دے سکتے ہیں؟
’یہ کوئی بے کار اور عام پہاڑی سلسلہ تو نہیں ہے، یہ ایک تاریخی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ لاکھوں لوگوں کے یہاں مذہبی مقامات ہیں جن کی زیارت کے لیے وہ یہاں آتے ہیں۔ یہاں بسنے والی حیات، چاہے وہ انسان، جانور یا پھر سبزے کی صورت میں ہو، ان کے لیے پانی کی ضرورت بھی اس پہاڑی سلسلے سے منسلک چوڑیو، کاسبو، کھارسر، ڈینسی، چھنیندا جیسی چٹانیں کرتی ہیں۔ چنانچہ یہ پہاڑیاں دیگر لوگوں کے لیے تو فقط گرینائٹ پتھر ہیں مگر یہاں کے لوگوں کے لیے ذریعہ معاش کا ایک اہم اور بنیادی وسیلہ ہیں۔
’دنیا کا کون سا قانون یہ اجازت دیتا ہے کہ لوگوں سے ان کا ذریعہ معاش چھین لیا جائے؟ ان سے ان کے تاریخی اور ثقافتی مقامات محض اس لیے چھین لیے جائیں کہ وہ گرینائٹ سے بنے ہوئے ہیں؟‘، خلیل کی بات میں کوئی ابہام نہیں تھا۔
اس حوالے سے جب میں نے صحرائے تھر بالخصوص کارونجھر کے ماحولیاتی و سماجی آگاہی رکھنے والے ادیب اور سماجی کارکن ساگر خاصخیلی سے گفتگو ہوئی تو ان کا تبصرہ کچھ یوں تھا ’میں تو یہ کہتا ہوں کہ پاکستان بالخصوص سندھ خوش نصیب ہے کہ جس کے حصے میں ’کارونجھر‘ جیسا پہاڑی سلسلہ آیا ہے۔ تقریباً 24 کلومیٹر پر محیط اس پہاڑی سلسلے میں نہ صرف چراگاہیں موجود ہیں بلکہ لومڑی، خرگوش، سیار، مور، نیل گائے، تیتر اور سانپوں کی کئی اقسام بھی پائی جاتی ہیں۔ موسمِ سرما میں سرد علاقوں کے پرندے اس پہاڑی سلسلے کے قرب و جوار میں موجود پانی کے تالابوں کا رخ کرتے ہیں جو موسمِ گرما شروع ہونے تک وہیں رہتے ہیں‘۔
ساگر مزید کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں فقط کارونجھر ہی وہ پہاڑ ہے جہاں گِدھوں کے آشیانے ہیں۔ ہمارے ملک میں گِدھوں کی نسل تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے اور جو کچھ اپنے وجود کو باقی رکھے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی پہاڑ ہیں۔ جنگلی حیات کی اس آماجگاہ اور فطرت کے حُسن کو اگر کچھ پیسوں کے لیے ہم بیچ کر برباد کردیں تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اس مقام کو تو نیشنل پارک قرار دے کر ایک بہترین سیاحتی مقام بنانا چاہیے یوں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے آنے سے مقامیوں کی خوشحالی کے امکانات بھی بڑھیں گے‘۔
صحرائے تھر سے تعلق رکھنے والے ناشاد سموں ایک شاعر اور سماجی کارکن ہیں، جب ان سے کارونجھر کی کاٹ کوٹ کے بارے میں بات چیت ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’دہائیوں پہلے یہاں چندی رام بھاٹ نامی معروف شاعر رہتے تھے۔ ماضی میں جب بھی سندھ کے ممتاز و معروف شاعر شیخ ایاز یہاں آیا کرتے تو چندی رام کو ضرور بلاتے۔ اسی چندی رام کا ایک شعر ہے کہ
کارونجھر جی کور، مریئن تہ میلئیں نھیں،
ماتھے ٹھوکے مور، ڈونگر لاگے ڈیپتو
جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ’تم یہ جہاں چھوڑ بھی دو گے، تب بھی کارونجھر کی چوٹی کو نہیں بھول پاؤگے۔
جب اس کی چوٹی پر مور تیز آواز میں بولتا ہے تو سارا پہاڑ کسی جلتے دیے کی مانند نظر آتا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کارونجھر کے ساتھ ہمارا جذباتی تعلق قائم ہے جس کا ایک مظہر مذکورہ شعر ہے۔ ہمارے لیے کارونجھر فقط ایک پہاڑ نہیں بلکہ ہماری صدیوں پرانی تاریخ کا امین بھی ہے۔ ہم اسے کاٹنے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔ کارونجھر کے تحفظ کے لیے ’سیو کارونجھر‘ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا گیا ہے، جس کے تحت ایک لاکھ افراد کی دستخط کی حامل پٹیشن تیار کی جائے گی جسے (اسکیچز بینڈ کے گلوکار) سیف سمیجو اقوام متحدہ میں جمع کروائیں گے۔ اس درخواست میں یہ کہا جائے گا کہ کارونجھر کو ’ورلڈ ہیریٹج‘ کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ ہر برس بارشوں کے بعد لاکھوں لوگ تفریح کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں کی خوبصورتی اور ثقافت کے رنگ ان لوگوں کو دُور دُور سے یہاں آنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ہم اس سلسلے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں‘۔
میں صحرا کے ان باشندوں کی باتیں سن کر حیران تھا، ہم جو خود کو پڑھا لکھا سمجھ نازاں ہوئے پھرتے ہیں، اور ’کلائیمیٹ چینج‘ کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں مگر عملی طور پر ہم کیا کرتے ہیں؟
ان لوگوں کے پاس غربت بھی ہے اور وسائل کی قلت بھی، مگر پھر بھی وہ جس طرح سے اپنے ورثے سے متعلق اتنا گہرائی میں جا کر سوچتے ہیں اسے دیکھ کر میں دنگ رہ گیا ہوں۔
یہ وہ لوگ ہیں جن پر کلائیمیٹ چینج کے بڑے منفی اثرات پڑے ہیں مگر یہ آسمانی بجلی سے جنم لینے والے سانحے پر آنکھوں سے دو بوُندیں نمکین پانی کی بہا کر خاموش ہوجاتے ہیں، جبکہ بے خبری میں ہی سہی وہ جو ماحولیات کے بھلے کے لیے کام کر رہے ہیں، انہیں تو اس کام کے لیے اعزازات سے بخشا جانا چاہیے کہ جو دانستہ یا نادانستہ طور پر فطرت کو منانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سوا سیر سونا دینے والی پہاڑی کو کاٹ کر برباد کرنا تو بالکل ایسا ہے جیسا سونے کے انڈے دینے والی مرغی کاٹ کر کھا لیا جائے۔ پیسا اگرچہ بہت کچھ ہے مگر سب کچھ نہیں ہے اور نہ ہی بن سکتا ہے۔ اپنا ملک اور اپنی ملک کی خوبصورتی اور ثقافتی ورثہ بھی آخر کچھ اہمیت رکھتا ہے۔ فطرت بھی آپ سے بھلے کی توقع کرتی ہے۔
مجھے امید ہے کہ آٓپ کو شروع میں سندھی اخبارات سے نقل کی گئی خبر کا پوشیدہ پہلو بھی بخوبی سمجھ آ گیا ہوگا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔