تماشا تب لگتا ہے جب اسے ’تماشہ‘ لکھا جاتا ہے
کراچی کے اخبارات میں ایک محلے کا نام ’اے بی سینا‘ چھپ رہا ہے۔ یہ دراصل ایبے سینا ہے جو افریقا کا ایک شہر ہے۔
آج کل ہر طرف ایک تماشا لگا ہوا ہے۔ آج کل کیا، تماشا کب نہیں ہوتا! ایک شاعر نے اپنی غزل میں سوال بھی کیا ہے کہ ’یہ تماشا ختم کب ہوگا؟‘
تماشا کو اخبارات ’تماشہ‘ بھی لکھ دیتے ہیں۔ شاید اس طرح تماشے کی شدت یا اہمیت کم کرنا مقصود ہو۔ لیکن یہ تماشا عربی سے آیا ہے اور عربی میں یہ ’تماشی‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے باہم مل کر پیدل چلنا۔