قرضے ادا کرنے کے لیے منافع بخش ادارے بیچنا کہاں کی عقلمندی ہے؟

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اس وقت شدید مالی دباؤ کا شکار ہے۔ حکومت کے پہلے مالی سال کے اختتام پر جو اعداد و شمار سامنے آئے ان پر معاشی تجزیہ کار انگشت بہ دندان ہیں۔
موجودہ حکومت کے مالی نظم و نسق پر تنقید بڑھتی چلی جارہی ہے۔ مالی سال کے اختتام پر بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 8.9 فیصد یا 3.44 ہزار ارب روپے ریکارڈ کیا گیا ہے جو ملکی معاشی تاریخ میں سب سے بڑا خسارہ ہے۔
وفاقی بجٹ خسارے میں سب سے بڑا خسارہ ان کاروباری اداروں کا ہے جنہوں نے ملکی خزانے میں اپنا حصہ ڈالنا تھا مگر معاملہ الٹا ہوا اور اب یہ سب ادارے خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں۔
حکومت کے کاروباری اداروں نے ملکی دفاعی بجٹ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 1622 ارب روپے کا مجموعی خسارہ کیا ہے۔ ملکی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ان اداروں کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی، ریلوے، قومی پرچم بردار فضائی کمپنی پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز ملکی معیشت پر اربوں روپوں کا بوجھ ڈال رہے ہیں۔
لہٰذا ایسے ادارے جنہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے ٹھیک نہ کیا جاسکا ہو انہیں فروخت کردینا ہی بہتر ہے اور اس کے لیے پاکستان میں نجکاری کی ایک مکمل وزارت موجود ہے۔
نواز شریف کے وزیرِاعظم بننے کے بعد 90ء کی دہائی میں اداروں کی مکمل فروخت کا عمل شروع ہوا اور 1991ء سے لے کر اب تک ریاست کے 173 کاروباری اداروں کو فروخت کیا جاچکا ہے۔
اس پورے عمل سے حکومتوں کو 650 ارب روپے حاصل ہوئے ہیں۔ حکومتِ پاکستان اب تک بینک، توانائی، ٹیلی کمیونی کیشن، آٹو موبائل، سیمنٹ، کیمیکلز، انجینئرنگ، فرٹیلائزر، گھی، معدنیات، چاول، روٹی پلانٹس، ٹیکسٹائل، اخبارات، سیاحت، سے متعلق اداروں کو فروخت کرچکی ہے۔ اداروں کی فروخت سے ملنے والی رقم کو قانون کے تحت 90 فیصد قرضوں کی واپسی اور 10 فیصد تحفیف غربت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
سرکاری اداروں کی فروخت کے لیے فیصلہ سازی بھی ہمہ جہت اور کثیر السطحی مرحلہ ہے۔ ریاست اگر اپنے کسی کاروباری ادارے کو فروخت کرنا چاہتی ہے تو وہ سب سے پہلے اس حوالے سے تفصیلات متعلقہ ادارہ یا وزارت کابینہ کی کمیٹی برائے نجکاری کو فراہم کرتی ہے۔ جس کے بعد یہ معاملہ کابینہ کے پاس جاتا ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد معاملہ نجکاری کی وزارت سے ہوکر نجکاری بورڈ میں آتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بھی ادارہ وفاقی قانون سازی کی فہرست کے حصہ دوئم یا شیڈول ٹو میں ہو تو اس کا فیصلہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں کیا جاتا ہے۔ اسٹیل مل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
آئی ایم ایف سے قرض سے متعلق پاکستانی معاہدے اور محمد میاں سومرو کی بطور وفاقی وزیر برائے نجکاری تعیناتی کے بعد نجکاری کے عمل میں تیزی دیکھی جارہی ہے۔ اس حوالے سے کراچی میں ایک روڈ شو کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں سرمایہ کاروں کو نجکاری کی فہرست میں شامل کمپنیوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ سیکریٹری وزارتِ نجکاری رضوان ملک نے اپنی تفصیلی بریفنگ میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ حکومت نجکاری کے عمل میں کس قدر سنجیدہ ہے۔ اس بریفنگ میں میاں سومرو کے علاوہ نجکاری بورڈ کے اراکین بھی موجود تھے۔
آج کل حکومت کے حامی نظر آنے والے ایک معاشی تجزیہ کار کا اس روڈ شو کے بعد کہنا تھا کہ رواں مہینے آنے والے آئی ایم ایف کے وفد کے پیش نظر اس روڈ شو کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس وقت بھی حکومت نجکاری کے لیے زیادہ سنجیدہ نہیں ہے۔
وزارتِ نجکاری اور نجکاری بورڈ کے مطابق گزشتہ دورِ حکومت میں قائم کیے جانے والے 2 بجلی کے پیداواری یونٹس ’بلوکی‘ اور ’حویلی بہادر شاہ‘ کی اسٹریٹجک نجکاری کی جارہی ہے جو دنیا میں اس وقت سب سے کارآمد پاور پلانٹس ہیں۔
ایسے میں یہ خدشہ ہے کہ حکومت کو نجکاری سے مطلوبہ رقم حاصل نہیں ہوسکے گی۔
پی آئی اے نے اپنا بحالی پروگرام پیش کردیا ہے، جس کے تحت ایئر لائن کے طیاروں میں اضافہ کیا جائے گا۔ تاہم ایئر لائن پر چڑھے قرضوں، انتظامی ڈھانچے کو جدید بنانے اور اضافی افرادی قوت سے متعلق تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ پی آئی اے کی بحالی سے متعلق تفصیلی تحریر پہلے ہی شائع ہوچکی ہے۔
پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے متعلق بھی وزیرِاعظم نے ندیم بابر کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی جس نے تجویز کیا ہے کہ ڈسکوز کی فروخت سے قبل ان کی تنظیمِ نو اور ان کے نقصانات میں کمی کی جائے گی۔ یہی نہیں بلکہ انہیں جدید انتظامی ڈھانچہ بنایا جائے گا اور اگر ضرورت پڑی تو ان کے حجم میں کمی کرنے بعد فروخت کیا جائے گا۔
اس لیے بس یہاں حیرت ہی کی جاسکتی ہے کہ قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے، ڈسکوز اور این ایچ اے جیسے اداروں کی نجکاری نہیں کی جارہی جبکہ بلوکی، حویلی بہادر شاہ، او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل جیسے منافع بخش اداروں کے ساتھ ساتھ قیمتی جائیداد کو بھی فروخت کیا جارہا ہے۔ یہ وہ تمام ادارے اور جائیدادیں ہیں جن کے لیے خریدار ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں یہ ادارے حکومت کو اچھا منافع بھی دے رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی نجکاری پالیسی سال 2000ء سے 2007ء تک اپنائی جانے والی پالیسی کا عکس نظر آتی ہے، جس میں خسارے میں چلنے والے اداروں کے بجائے منافع بخش اداروں کی فروخت پر توجہ دی گئی جس سے حاصل ہونے والی رقم سے بجٹ خسارے کو کم کرنے میں مدد ملی تھی۔ شاید اب بھی ایسا ہی کیا جارہا ہے۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔