سیاحت کا ’سیاہ‘ پہلو
راشدہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ایک ایسے علاقے میں رہائش پذیر ہیں جہاں جا بجا آلودگی اور گندگی پھیلی ہوئی ہے۔ آبی گزرگاہیں اب چوہوں کا مسکن نظر آتی ہیں کیونکہ ان میں آس پاس کے ہوٹل والے بچا کچھا کھانا پھینکتے ہیں۔
سڑکوں پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔
راشدہ کہتی ہیں کہ ’اسکول سے گھر لوٹنے کا وقت ہوتا ہے تو ہر طرف اتنا رش، شور اور سیلفی لینے والوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے کہ گھر تک پہنچنا دشوار ترین کام بن جاتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ رتی برابر بھی خالی جگہ نہیں ہوتی۔ ہمیں اپنے بچوں کے ہاتھ یا بازو مضبوطی سے تھامنے پڑتے ہیں۔ ہر طرف اجنبی لوگوں کی بھرمار ہوتی ہے۔
راشدہ اسلام آباد کے شمال مشرق میں واقع سیاحت دوست ہل اسٹیشن مری میں اسکول ٹیچر ہیں۔
دارالحکومت سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر واقعے مری سیاحوں کے لیے طویل ہفتہ وار چھٹیاں گزارنے کے لیے زبردست سیاحتی مقام ہے، جہاں تک رسائی بھی بالکل آسان ہے۔
رواں برس عید الفطر کے موقعے پر ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ 11 ہزار گاڑیوں نے اس علاقے کا رخ کیا۔ مری کی معیشت تقریباً مکمل طور پر ہی سیاحتی شعبے پر منحصر ہے۔ سیاحت کی وجہ سے ہر سال اچھا خاصا ریوینیو اکھٹا ہوتا ہے اور ہزاروں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
مگر اس بڑھتی سیاحت کی قیمت مقامی باشندوں کی روزمرہ کی زندگیوں کو شدید متاثر کرتے ہوئے ادا کی جاتی ہے۔ راشدہ کہتی ہیں کہ مری کے سیاحتی مرکز بننے سے مقامی افراد کی مشکلات میں اضافہ ہوا تاہم کاروباری افراد نے یہاں پر سیاحت کے فروغ کا خیر مقدم کیا۔
دنیا میں تقریباً ہر جگہ سیاحت سے متعلق منصوبوں کی پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ سیاحتی مقام کے مقامی لینڈ اسکیپ اور سٹی اسکیپ میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جو سیاحوں کو بھاتی ہوں اور سیاحت کے لیے موزوں ہوں جبکہ وہاں کے مقامی باشندے کس حال میں زندگی بسر کر رہے ہیں اسے زیادہ خاطر میں نہیں لایا جاتا۔
یعنی اکثر اوقات اسکولوں، صحت مراکز کے مقامی انفرااسٹرچکر، بجلی کی فراہمی اور کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے جیسی وہ سہولیات جن کا تعلق مقامی باشندوں کی زندگی سے ہوتا ہے ان میں بہتری نہیں لائی جاتی جبکہ ترقیاتی کاموں کی توجہ صرف ان کاموں پر رہتی ہے جن سے سیاحوں کے لیے تفریح کا سامان کیا جاسکے۔
اگرچہ مری کے مال روڈ جیسے بڑے بڑے تفریحی مقامات کو صاف ستھرا رکھا جاتا ہے لیکن روڈ کے پیچھے ہی موجود عمارتوں کے پاس سڑتے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں اور گندگی اور غیر ٹریٹ شدہ پانی نہروں اور زیرِ زمین پانی میں شامل ہو رہا ہوتا ہے۔ یہاں کے مقامی باشندوں کے لیے پانی کی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ حالیہ مون سون کے موسم میں راشدہ کو اپنے اہل خانہ کے لیے بوتل بند پانی خریدنا پڑا تھا کیونکہ یہ ڈر ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہاں پر پینے کا پانی صحت کے لیے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔
مری میں بالخصوص خواتین اور بچوں نے باہر آنا جانا کم کردیا ہے جس کی وجہ سڑکوں پر موجود لوگوں کا رش ہے۔ اکثر و بیشتر مقامی تو وہاں موجود تفریح گاہوں یا سیاحوں کے لیے دستیاب سہولیات تک رسائی بھی حاصل نہیں کرپاتے کیونکہ یا تو وہ ناقابلِ استطاعت ہوتے ہیں یا پھر رسائی دینے سے ہی انکار کردیا جاتا ہے۔
راشدہ نے بتایا کہ ایک بار جب وہ اپنے بچوں اور ان کے ہاں گھومنے کے لیے آئے خاندان کے دیگر افراد کو مقامی پکنک مقام پر گئیں تو انہیں وہاں سے مایوس لوٹنا پڑا کیونکہ وہاں سیاحوں کی گاڑیوں کا شدید ٹریفک جام تھا۔
درحقیقت مری کو دیکھ کر آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر ہونے والی سیاحت کے نتیجے میں کون سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق علاقے میں تیزی سے جاری اربنائزیشن کا عمل ہی جنگلات کے خاتمے کی بنیادی وجہ ہے۔
آئی ڈبلیو اے پبلیشنگ کے واٹر پالیسی پر شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق صرف 19 برسوں کے اندر مری میں تعمیر شدہ علاقے میں 22 فیصد اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں جنگل کاٹنے پڑے، درجہ حرارت میں اضافہ ہوا اور زیرِ زمین پانی نیچے جانے کی وجہ سے پانی کی سنگین قلت کا سامنا ہوا۔ سیاحوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر جابجا عمارتیں کھڑی کردی گئی ہیں اور ان کا پھیلاؤ جنگلات کی طرف بڑھتا چلا گیا۔
گلگت بلتستان کی ہنزہ وادی میں مقامی سیاحت کے بڑھتے رجحان کے باعث ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ آگے چل کر اس علاقے میں بھی ویسا ہی ماحولیاتی بگاڑ پیدا ہوگا جس کا شکار آج مری ہے۔ وہاں جس تیزی سے مقامی کاروبار اور منصوبہ بندی کے بغیر اربنائزیشن کا عمل جاری ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست نے کس قدر مقامی ضروریات کو نظر انداز جبکہ ٹؤرسٹ ایجنڈے کو ترجیح دی ہے۔ ہنزہ کے علاقے کریم آباد سے تعلق رکھنے والی آرکیٹیکٹ صبوحی عیسیٰ کہتی ہیں کہ ’ٹؤرسٹ بزنس سے حاصل ہونے والے منافع کی چمک نے لوگوں کو اندھا کردیا اور انہیں سیاحت کے زبردست بڑھتے رجحان کے نتیجے میں پہنچنے والے دُور رس اثرات نظر ہی آ رہے ہیں۔‘