اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ انہیں فلم کو نمائش کی اجازت نہ دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں بتائی گئی اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر فلم کو کس اعتراض پر روکا گیا؟
مرکزی سنسر بورڈ کے چیئرمین دانیال گیلانی نے بھی فلم کو نمائش کی اجازت نہ دیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلم میں ایسے مناظر تھے جس کی وجہ سے اسے ریلیز کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
تاہم اب شمعون عباسی نے ایک ٹوئیٹ میں بتایا ہے کہ مرکزی سنسر بورڈ نے فلم پر سے پابندی اٹھالی ہے اور وہ اس کے لیے چیئرمین دانیال گیلانی کے شکر گزار ہیں۔
ان کے اس بیان کو مرکزی سنسر بورڈ کے چیئرمین نے اپنے اکاﺅنٹ پر ری ٹوئیٹ کرکے ایک طرح سے تصدیق کی کہ فلم پر سے پابندی کو اٹھالیا گیا ہے۔
اس فلم کو 18 اکتوبر کو ریلیز ہونا تھا مگر پابندی کے باعث ایسا نہیں ہوسکا اور اب اجازت ملنے کے بعد اس کی نئی تاریخ کا اعلان آئندہ چند دن میں کیے جانے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ ’درج‘ کی کہانی اگرچہ آدم خور انسانوں کے گرد گھومتی ہے لیکن فلم میں ایک ساتھ دوسری کہانیاں بھی دکھائی جائیں گی لیکن تمام کہانیوں کا آپس میں تعلق ہوتا ہے۔
فلم کے جاری کیے گئے ٹریلر میں جہاں ایک خاتون کو اپنے لاپتہ شوہر کو تلاش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے وہیں یہ بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ ان کے لاپتہ شوہر کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش قبر سے نکال کر غائب کردی جاتی ہے اور شوہر کو تلاش کرتی خاتون کو کئی حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’درج‘ کی ہدایات شمعون عباسی نے دی ہے جب کہ انہوں نے اس کی کہانی بھی لکھی ہے۔
فلم کی کاسٹ میں جہاں خود شمعون عباسی ایکشن دکھاتے نظر آئیں گے تو وہیں ان کے ساتھ مائرہ خان، شیری شاہ، نعمان جاوید اور دیگر اداکار شامل ہیں۔
شمعون عباسی کے مطابق ’درج‘ پنجاب کے 2 بھائیوں کی سچی کہانی سے متاثر ہوکر بنائی گئی فلم ہے اور اس کی کہانی تحقیق کے بعد لکھی گئی۔
فلم کی کہانی قبروں سے 100 مردے نکال کر کھانے والے افراد کے گرد گھومتی ہے اور اس میں کوئی بھی ایسا سین نہیں جس کی بنیاد پر فلم کو نمائش سے روکا جائے۔