نقطہ نظر گوادر ماسٹر پلان ایک اچھی پیش رفت لیکن... جہاں تک زمین مختص کرنے کا تعلق ہے تو اہم فیصلے آسمانوں میں لیے جاتے ہیں اور پھر گوادر میں انہیں نافذ کردیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نعمان احمد لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے چیئرمین ہیں۔ گزشتہ ماہ وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے اعلان کیا کہ گوادر ماسٹر پلان کی منظوری دے دی گئی ہے اور یوں ان مختلف اقتصادی، انفرااسٹرکچرل اور اسٹریٹجک ترقیاتی منصوبوں کو ترتیب دینے کا اہم مرحلہ تکمیل کو پہنچا ہے جنہیں متعدد چینی اداروں سمیت مختلف ملکی ادارے حقیقت کا روپ دے رہے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس پلان کو قومی ترقیاتی کونسل کی حمایت بھی حاصل ہوگی۔ چونکہ سی پیک میں گوادر کا مرکزی کردار ہے اس لیے اس پلان کی کئی خصوصیات غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ بلوچستان کے عوام کو بالعموم اور گوادر کے لوگوں کو بالخصوص کو یہ سن کر خوشی اور طمانیت محسوس ہونی چاہیے کہ اس غیر معمولی اسٹریٹجک منصوبے پر تمام سیاسی و عسکری قیادت متفق ہے۔ اس پلان پر اگر مناسب انداز میں عمل درآمد ہوا تو اس سے گوادر کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی نصیب ہوسکتی ہے۔ گزشتہ پیش رفتوں سے وہ نتائج حاصل نہیں ہوئے تھے جن کی توقع مقامی آبادی، قومی و صوبائی قیادت کر رہی تھی تاہم توقع کی جا رہی ہے کہ موجودہ پلان میں جامع تجزیات اور بروقت مداخلتوں پر مبنی اقدامات شامل ہوں گے۔ گوادر کی اسٹریٹجک اہمیت سے کبھی انکار نہیں رہا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ بحیرہ عرب سے منسلک پاکستان کے جنوب مغربی ساحل جبکہ اس خلیجِ فارس کے دہانے پر واقع ہے جہاں سے دنیا کے ایک تہائی سے زائد تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔ یہ بندرگاہ خلیج، وسطی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا جیسے 3 اہم مقامات کے بیچ میں واقع ہے۔ مگر بدقسمتی سے ان تمام خصوصیات کے باوجود بھی یہاں پر کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کو اٹھان حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ بندرگاہ کو ایک قابلِ عمل انٹرپرائز بنانے کے لیے اونچی لاگت لگنی ہے۔خود بندرگاہ کی عمل کاری (Port operations) میں شامل تکنیکی خامیوں کی وجہ سے جہازوں کی منتقلی سے متعلق سرگرمیاں ممکن نہیں ہوسکتی۔ گوادر کو باقی صوبے اور باقی ملک سے ملانے والی سڑکیں بہت ہی محدود ہیں اور گوادر کو سکھر سے جوڑنے والی ایم 8 موٹروے ابھی جزوی طور پر ہی مکمل ہوپائی ہے، جبکہ ریل روڈ پر کام شروع ہونا ابھی باقی ہے۔ مناسب زمینی رابطوں کے بغیر بندرگاہ کے حقیقی ثمرات کا حصول ممکن نہیں ہوپائے گا۔ خراب سیکیورٹی کی صورتحال اور آس پاس موجود غیر محفوظ علاقوں کے باعث بندرگاہ سے بھرپور فائدہ حاصل کرنے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ شپ یارڈ کی تعمیر جیسے بڑے منصوبے آپریشنل کلیئرنس نہ ملنے اور فیصلہ سازی کے عمل میں عدم دلچسپی کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ بندرگاہ کے منصوبے پر 2008ء میں شروع ہونے والے کام کی تکمیل میں مزید 3 برس کا عرصہ لگنے کی توقع کی جارہی ہے۔ ماسٹر پلان اور دیگر وضح کردہ پالیسیوں میں ٹیکس میں رعایت، حتی الامکان معاونت اور دیگر فوائد کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ تاہم سرمایہ کاروں میں اس جانب اس وقت تک دلچسپی پیدا نہیں ہوگی جب تک حقیقی اقتصادی منصوبے ریاستی معاونت کے ساتھ اپنا کام شروع نہیں کریں گے۔ گوادر کے موجودہ فضائی رابطوں کے ذریعے چھوٹے اور درمیانی سائز کے مسافر/کارگو جہازوں کی آمد و رفت ہی ممکن ہے۔ حال ہی میں نئے ہوائی اڈے کے لیے 4 ہزار 300 ایکڑ زمین مختص کی گئی ہے۔ چینی معاونت کے ساتھ 25 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی لاگت سے بننے والے اس منصوبے کی تکمیل کا عرصہ 3 برس مقرر کیا گیا ہے۔ اس ایئرپورٹ کے ذریعے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہوگا۔سی پیک اور گوادر کی افادیت کا دار و مدار وسطی ایشیائی ریاستوں اور افغانستان کے ساتھ قائم ہونے والے ہمارے سفارتی اور تجارتی تعلقات کی نوعیت پر ہے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں سے ریل روڈ رابطوں کے ذریعے افغانستان کی ٹرانسپورٹ سے جڑی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ افغانستان میں حالات سازگار ہونے کے ساتھ ہی خطے میں تجارتی سرگرمیوں میں زبردست تیزی آئے گی۔ کشمیر کے معاملے پر حالیہ تناؤ بھری صورتحال کے باوجود 10 ارب ڈالر کی لاگت سے شروع ہونے والا ٹاپی گیس پائپ لائن منصوبہ متاثر نہیں ہوا ہے اور اس منصوبے کے تحت ترکمانستان اپنی قدرتی گیس افغانستان، پاکستان اور بھارت کو برآمد کرسکے گا۔ توانائی کی اسٹریٹجک فراہمی سے گوادر سمیت پورے خطے میں خوشگوار تبدیلی آئے گی۔گوادر کی اقتصادی سرگرمیوں کا سب سے زیادہ نمایاں حصہ ریئل اسٹیٹ کا کاروبار نظر آتا ہے۔ ماسٹر پلان کے تحت 40 فیصد زمین کو رہائشی اور مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی عمارتوں کی تعمیر کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ تاہم انتظامیہ کے لیے زمین کی منیجمنٹ، لینڈ یوٹیلائزیشن، منی ٹائزیشن اور ڈسٹری بیوشن کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا ایک حقیقی امتحان ہوگا۔ جہاں تک زمین مختص کرنے کا تعلق ہے تو اہم فیصلے آسمانوں میں لیے جاتے ہیں اور پھر گوادر میں انہیں نافذ کردیا جاتا ہے: مقامی اور صوبائی انتظامیہ کو اس حوالے سے کوئی خصوصی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ تاہم ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دینے کا اختیار ایک ایسا واحد آپشن ہے جس کا اطلاق گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی مؤثر انداز میں کرسکتی ہے۔ گوادر میں کئی ساری قانونی، بظاہر قانونی اور غیر قانونی اسکیموں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اگر جی ڈی اے زمین کی فروخت کو یوٹیلائزیشن اور دخیل کاری (occupancy) سے مشروط بنادے تو قیاس آرائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ جی ڈی اے کو چاہیے کہ وہ ترقیاتی منصوبوں اور شہری زمین کی منیجمنٹ سے جڑے معاملات پر نظرثانی اور فیصلہ کرنے سے متعلق گوادر اسٹیئرنگ کمیٹی کے طور پر ایک فورم تشکیل دینے کی غرض سے مختلف وفاقی اور فوجی اداروں سے بات چیت کرے۔اسی پلیٹ فارم کے ذریعے کم آمدن والے افراد کے لیے رہائشی اسکیموں سے جڑے مسائل، غیر مراعاتی یافتہ گروہوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور بڑے کاروباری اداروں کو ابھرتے ہوئے چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں سے جوڑا جائے۔ اس کے علاوہ موجودہ پلان کو ایک اتفاقِ رائے کا حامل منصوبہ بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں اور گروہوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی جانی چاہیے۔ حقیقی طاقتوں کو حقیقی خدشات دُور کرنا ہوں گے تاکہ مقامی لوگ خود اس منصوبے کی ذمہ داری مؤثر انداز میں اپنے سر لے سکیں۔یہ مضمون 11 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر نعمان احمد لکھاری کراچی میں مقیم ایک مدرس اور محقق ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔