Parenting

بچوں کو بگاڑنے والی والدین کی عادات

کیا کبھی آپ نے یا آپ کے والدین نے اس بات پر غور کیا ہے کہ وہ کون سی خاندانی عادتیں ہیں جن سے بچے بگڑتے ہیں؟

سلمان نے ہوش سنبھالتے ہی اپنی والدہ کو اپنی دادی اور ابو سے جھوٹ بولتے اور بہانے بناتے سنا۔

پھر اس نے اپنے ابو کو دادی سے جھوٹ بولتے اور بہانے بنا کر پیسے لیتے، تنگ کرتے اور جھگڑے کرتے دیکھا۔

پھر یہی والدین سلمان کو 'سچائی ہی نجات' ہے، 'مر جاؤ لیکن جھوٹ نہ بولو' جیسے جملے بولتے تو سلمان حیران ہوتا اور سچ ہی اہم ہے تو پھر یہ جھوٹ اور بہانے کیسے؟

وہ حیران ہوتا، سوچتا اور پھر پریشان ہوتا کہ یہ سب کچھ کیا ہے؟

یہ الجھن ذہن سے دل اور پھر اس کے عمل میں ڈھل گئی۔

آغاز میں وہ اسکول کا کام نہ کرتا اور اسکول میں جھوٹ بولتا کہ ’ٹیچر میری طبعیت خراب ہو گئی تھی، اس لیے کام نہیں کر سکا۔

پھر وہ ٹیسٹ میں فیل ہوا تو گھر میں بتایا کہ بہترین نمبروں سے پاس ہو گیا ہوں، امی کے پرس سے پیسے چوری کرکے یہ بول دیتا کہ 'مجھے تو نہیں معلوم'

جیسے جیسے سلمان بڑا ہوتا گیا، جھوٹ، دھوکے بازی اور بددیانتی کا رویہ سلمان کے ہر عمل، گوشے اور پہلو میں سرایت کرتا چلا گیا اور اس کی سب سے بڑی وجہ اس کے والدین کا جھوٹ بول کر اپنے عمل کو درست ثابت کرنا تھا۔

اب ایک مستند ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ جو والدین بچوں کے سامنے مسلسل سفید جھوٹ بولتے رہتے ہیں وہ اپنے بچوں کو بدیانت اور دھوکے باز افراد کے طور پر بڑا کر رہے ہیں۔

نن یانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی سنگا پور کی ایک ریسرچ کے مطابق والدین کے ایسے جھوٹ جو فوری فائدے یا آرام کے لیے بولے جاتے ہیں وہ بچے کی شخصیت میں بد دیانتی کا عنصر شامل کر دیتے ہیں۔

مثلا بچے کو یہ کہہ کر ڈرانا کہ 'تم نے میری بات نہیں مانی تو میں پولیس کو بلا لوں گی'

یا 'تم نے یہ بات نہ سنی تو تمہیں پانی میں ڈال دیا جائے گا' وغیرہ سے بچوں کے ذہن میں جھوٹ ایک ذہنی حقیقت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

ایک طرف والدین یہ کہتے ہیں کہ دیانتداری ہی بہترین حکمت عملی ہے اور دوسری طرف وہ جھوٹے الفاظ اور اعمال سے اپنے کہے کی حیثیت کو متاثر کر دیتے ہیں۔

ٹورنٹو یونیورسٹی، کیلیفورنیا یونیورسٹی اور زیجیانگ نیشنل یونیورسٹی چائنا کے تعاون سے ہونے والی یہ ریسرچ اس لحاظ سے اہم ہے کہ والدین میں مشترکہ طور پر یہ بات پائی جاتی ہے کہ تھوڑا سا وقت بچانے کے لیے بچے کو جھوٹے وعدے یا جھوٹی دھمکی سے کام کرنے پر مجبورکیا جاتا ہے۔

والدین کے جھوٹ کے اثرات

والدین بچے کے پہلے رول ماڈلز اور 'ہیرو' ہوتے ہیں, ان کی ہر عادت، بات اور رویہ بچوں کے لیے نقل کرنا نہ صرف آسان ہوتا ہے بلکہ باعث فخر بھی, تو جہاں اچھی عادات اور رویے بچے کو مستقبل میں حقیقی رول ماڈل بنائیں گے وہیں بری عادات اور رویے بچے کی شخصیت کو خوددار بنانے کے لیے، والدین کے لیے اور معاشرے کے لیے نقصان کا باعث بنادیں گے۔

اب اس بظاہر 'بے ضرر اور معصوم سی' جھوٹ بولنے والی عادت کے نقصانات ہی دیکھیے جو بچے کی شخصیت میں پیدا ہوجاتے ہیں۔

لوگوں پر اعتماد میں کمی

جھوٹ بولنے والے والدین کے بچے ایک طرف جہاں دیگر لوگوں پر بھروسہ نہیں کرتے وہی یہ بھی لوگوں کے لیے قابل اعتماد نہیں رہتے۔

بددیانتی کا فروغ

بچپن سے ہی دھوکے دیکھنے سے بچوں کی سوچنے کی استعداد میں بد دیانتی کا عنصر شامل ہو جاتا ہے اور اس کے اثرات ہم اپنے معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں۔

مبالغہ آرائی

'جھوٹ نہ بولو ورنہ زبان کالی ہو جائے گی' بذات خود ایک جھوٹا دعویٰ ہے، ان جیسے جملے بچوں میں جھوٹی مبالغہ آرائی کی عادت پیدا کر دیتے ہیں۔

دھوکے بازی

والدین کے جھوٹ کی عادت سے بچوں میں والدین کو اور بڑے ہو کر اپنے ساتھ کام کرنے والے افراد کو دھوکہ دینے کی برائی پیدا ہو جاتی ہے۔

تعلقات کا متاثر ہونا

جھوٹ پر مبنی والدین و بچوں کے تعلقات کا سب سے بڑا ممکنہ نقصان، بچوں کا اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور دفتری ساتھیوں کے ساتھ خوشگوار اور گرم جوش تعلقات کا نہ ہونا ہے۔

جھوٹ نہیں تو کیا؟

بچوں کے آگے جھوٹ یا غلط بیانی کرتے رہنے سے بچوں کی عادتیں بگڑتی ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک

اگر جھوٹی باتوں سے بچوں کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا تو پھر کیا کیا جائے؟

پیرنٹنگ اور نفسیات کے ماہرین اس کے لیے مختلف طریقے تجویز کرتے ہیں جن میں کچھ درج ذیل ہیں۔

1۔ ایسے واقعات میں جہاں والدین بچے کو جھوٹ بول کر کسی کام کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں بچے کی کیفیت کو سمجھنے اور قبول کرنے کی استعداد پیدا کریں، سوچیں کہ کیوں بچہ کسی کام سے انکار کر رہا ہے؟ کب سختی کی ضرورت ہے اور کب نرمی کی؟ وغیرہ

2 ۔ جھوٹ کے بجائے بچوں کو مختلف کاموں کے لیے مسلسل شعور دینے کی عادت پیدا کریں جیسے کھانا نہیں کھا رہا تو بچے کو کھانا نہ کھانے کے نقصانات اور کھانا کھانے کے فوائد بتائیں۔

3 ۔ مل کر کام کرنے سے بچے میں ایسی باتوں اور کاموں کے لیے آمادگی پیدا ہوتی ہے جہاں والدین کو جھوٹ بول کر کام کروانا پڑتا ہے، اسی طرح ایک سے زائد آپشنز دینے سے، مثلا اردو کا کام نہیں کر رہا تو ڈرائنگ کا آپشن دیں اور پھر اردو کا کام کرنے کو کہیں، بچے میں آمادگی پیدا ہوتی ہے۔


فرحان ظفر 10 سال سے لکھنے لکھانے سے وابستہ ہیں۔

اپلائیڈ سائیکالوجی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ہولڈر ہیں، ساتھ ہی آرگنائزیشن کنسلٹنسی، پرسنل اور پیرنٹس کونسلنگ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ان کے ساتھ farhanppi@yahoo.com اور ان کے فیس بک پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔