میاں صاحب آپ ہیرو بن سکتے تھے


میاں محمد نواز شریف کی داستان میں نئے ابواب کا اضافہ ہو رہا ہے۔ میاں صاحب کی قید نے پرانے اور بوڑھے ہوچکے ان کے کارکنان میں مثبت جذبات پیدا کیے ہیں۔ ان کارکنان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو کسی زمانے میں نواز شریف پر شدید تنقید کیا کرتے تھے۔ سادہ لفظوں میں کہیں تو یہ جمہوریت پسند کیمپ ہے۔
جبکہ میاں صاحب کے بارے میں مثبت باتوں کی بہتات میں ان کے حوصلے کی نئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ لوگوں کی ایک ناختم ہونے والی تعداد ہے جو میاں صاحب سے قید خانے میں ملاقات کے دعوے کررہی ہے۔ کہانی کے سب سے زیادہ خیالی نسخوں میں نواز شریف تقریباً گوتم بدھ کی ہی طرح درخت کے سائے تلے بیٹھے ہوئے ملتے ہیں جو قید میں آخری نجات پانے کی خاطر دنیاوی آزادی سے انکار کرچکے ہیں۔
ہر کچھ عرصے بعد قومی سوچ میں اس بات کی موجودگی کو یقینی بنانے کی خاطر پورا زور لگا کر یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ ’میاں صاحب نے باہر جانے سے انکار کردیا ہے۔ وہ انہیں باہر بھیجنا چاہتے ہیں۔ وہ انہیں اور مریم دونوں کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ کہیں نہیں جا رہے۔‘
بلاشبہ میاں صاحب گناہ دھوکر اور نیا جنم لے کر تاریخ کے ان چند جمہوریت پسندوں کی صف میں شامل ہوچکے ہیں جو جمہوریت کی خاطر پہنچنے والے ذاتی نقصان سمیت ماضی میں اپنے ساتھ ہونے والے تحقیرانہ سلوک پر غالب آنے میں کامیاب رہے ہیں جس کی جھلک نواز شریف کی ذاتی جدوجہد میں نظر آتی ہے۔
وہ لوگ جو لاہور میں ایک عرصے سے مقیم ہیں، جو نہ صرف میاں صاحب کو سیاسی میدان میں اترنے سے لے کر اب تک دیکھتے چلے آرہے ہیں بلکہ ان کی موجودگی سے متاثر بھی رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ نواز شریف کی سیاست کے شکار بننے والے چند لوگوں نے ان کے نئے اوتار کی حمایت کرنے کے قابل بننے کے لیے اپنے اندر کی کس طرح کی ظالم روح پر قابو پایا ہوگا۔
جو لوگ یہ جانتے ہیں کہ میاں صاحب نے 1980ء میں کس طرح کی سیاست کی ہے، جب ان کے سامنے کوئی کھڑا ہوکر یہ کہتا ہے کہ جناب معذرت، کم از کم میں تو ہماری اجتماعی جمہوری ضمیر کے محافظ کے طور پر میاں صاحب کے نام کی آنکھیں بند کرکے حمایت نہیں کرپاؤں گا، تو انہیں یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہیے۔
80ء کی دہائی میں جب شریفوں نے لاہور کو اپنا قلعہ بنایا تھا اس لاہور اور آج کے لاہور میں فرق ہے۔ تاہم شریفوں کے اس قلعے میں کچھ ایسے چند لوگ بھی مل جائیں گے جو مسلم لیگ (ن) کے قائد کو حال ہی میں بااصول جمہوریت پسند بننے کی وجہ سے ان کا احترام کرتے ہیں تاہم وہ یہ کہنے میں ذرا بھی نہیں جھجھکتے کہ نواز شریف کو مضبوط بنانے اور ان کے حالیہ اوتار کی کھلے عام حمایت کرنے سے بوجہ قاصر ہیں۔ جی ہاں، بوجہ قاصر ہیں، بالکل انکاری نہیں۔