نقطہ نظر اگر مولانا فضل الرحمٰن اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو؟ غیر منتخب کھلاڑی سیاست سے دور رہیں اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے حقیقی اکثریت کو ایوان تک پہنچنے دیں۔ ڈاکٹر نیاز مرتضیٰ لکھاری برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سینئر فیلو ہیں، اور انسپائیرنگ پاکستان نامی ایک ترقی پسند پالیسی یونٹ کے سربراہ ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) (جے یو آئی ایف) نے اکتوبر میں اسلام آباد کو مفلوج بنا کر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت گرانے کے لیے اپنی کمر کَس لی ہے۔ ماہِ اکتوبر روسی اور چینی انقلابوں میں بھی بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم جے یو آئی ایف کا مقصد کچھ خاص ویسا نہیں جیسا ان بڑے واقعات کے پیچھے کارفرما تھا۔ روسی زاروں جیسی غیر انتخابی حکومتوں کا عوامی احتجاجی مظاہروں کے ذریعے خاتمہ لانے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ یورپی یونین کے انتخابی مشن کی رپورٹ سے نواز شریف کو زندگی بھر کے لیے انتخابی دوڑ سے بے دخل کرنے اور ہارس ٹریڈنگ میں غیر انتخابی اداروں کا مشکوک کردار ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم جب تک یہ خدشات مناسب تحقیقات کے ذریعے سچ ثابت نہیں ہوجاتے تب تک پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرنا غلط ہے۔ اس جماعت کی بُری حکمرانی بھی اس مطالبے کو جائز نہیں ٹھہراتی۔ اس معاملے پر جے یو آئی ایف کی جانب سے ممکنہ طور پر مذہب کا استعمال بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ چونکہ اخلاقی منطق پارٹی کو اپنا مؤقف بدلنے پر مجبور نہیں کرے گی (البتہ لالچ یا جبر ہو تو اور بات ہے)، اس لیے ہم تاریخ کے اسباق کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی یہ تجزیہ کرسکتے ہیں کہ آیا اگر یہ جماعت اپنا مطالبہ لے کر آگے بڑھتی ہے تو اس کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں۔ تاریخ میں ایسی متعدد حکومتیں رہی ہیں جن کا اچانک ہی خاتمہ ہوگیا۔ اچانک اقتدار کے خاتمے کے ان واقعات نے باضابطہ اختیارات کے حامل سربراہانِ ریاست کو اقتدار سے ہٹایا، مضبوط ترین اور حد سے زیادہ کَٹھ پتلی وزرائے اعظم کی حکومت کا خاتمہ کیا، بلکہ ہٹائے گئے سربراہانِ حکومت کی جگہ پُر کرنے کے لیے لائے جانے والے بقیہ وزرائے اعظم بھی نہ بخشے گئے۔ اقتدار کے خاتمے کی چکرا دینی والی وجوہات میں موت (ایک بار)، قتل (2 بار)، سربراہ ریاست کی جانب سے مبینہ عہدے سے برطرفی (6 بار)، جبری استفعیٰ (8 بار)، کمزور عدالتی فیصلے (2 بار)، مارشل لا (4 بار)، مشکوک اسمبلی ووٹ (دو بار) اور سڑکوں پر احتجاجی مظاہرہ (ایک بار) شامل ہیں۔ممکنہ طور پر نواز شریف تاریخ میں واحد ایسے وزیر اعظم رہے ہیں جنہیں 4 وجوہات کی بنا پر اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے، جبکہ ان کی زندگی میں 2 بار ایسے مواقع بھی آئے جب ان کی حکومت کو گرانے کے لیے (2014ء میں سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں کے ذریعے اور 1997ء میں عدالتی فیصلے کے تحت) کوششیں کی گئیں مگر ان کا اقتدار محفوظ رہا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے 3 بار دیگر وزرائے اعظم کی حکومتیں گرانے میں اہم کردار ادا کیا، ان وزرائے اعظم میں محمد خان جونیجو اور بینظیر بھٹو شامل ہیں۔ حکومتی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو وہ حکومتیں طویل چلیں جو فوج سے جڑی رہیں، اس کے بعد منصفانہ انتخابات سے تشکیل پانے والی اسمبلیاں کسی حد تک طویل چلیں، جبکہ ان سب سے کم طوالت 1950 کی دہائی اور 1990 کی دہائی میں دھاندلی زدہ سویلین حکومتوں کی رہی۔ غیر انتخابی طاقتوں کو ہی یکایک اقتداری خاتمے کی وجہ قرار دیا جاتا ہے، ہر بار حکومت کے خاتمے پر نظر آنے والی افراتفری کی شدت اور اُسے پیدا کرنے کے مختلف طریقہ کار سے ہمارے سیاسی عدم استحکام اور اس کی تباہ کن تخلیق ظاہر ہوتی ہے۔ احتجاجی مظاہروں نے صرف جنرل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اہم کردار ادا کیا۔ لیکن ان احتجاجی مظاہروں کے پیچھے ڈیپ اسٹیٹ کی ممکنہ خاموش پشت پناہی کا اہم کردار رہا ہوگا، یعنی کوئی بھی صورت رہی ہو، آخری مرضی اسی ڈیپ اسٹیٹ کی چلی۔ قتل، فوجی بغاوت اور صدارتی حکم کے ذریعے اقتدار کا خاتمہ لانا ممکن نہیں رہا ایسے میں صرف جبری روانگی، احتجاجی مظاہرے، اسمبلی ووٹ اور عدالتی فیصلے ہی وہ طریقے رہ جاتے ہیں جن سے حکومت گرانا ممکن ہے۔ کیا وہ نئے طریقے ایجاد کرسکتے ہیں؟ آئیے اب تاریخ کی مدد سے یہ پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس امتحان میں پی ٹی آئی کی کامیابی کا کتنا امکان ہے؟ کئی لوگوں کو یہ بظاہر ایک سویلین حکومت نظر آتی ہے اور اس کی مدت کے بارے میں اکثر لوگ یقین کے ساتھ کچھ کہنے سے گریزاں ہیں اور حکومت کی طوالت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پر منحصر بتاتے ہیں، ظاہر ہے کہ احتجاجی مظاہرے انہی کے اشاروں پر کامیاب اور ناکام ہوتے ہیں۔ چند لوگوں کا کہنا ہے کہ مولانا کے پیچھے مضبوط لوگ کھڑے ہیں۔ لیکن مبینہ طور پر اتنی محنت کے بعد اقتدار میں لائی گئی حکومت آخر اتنی جلدی کیوں گرادی جائے؟ ماضی میں صرف اس وقت ہی زیر حفاظت و حمایت اشخاص کو عہدوں سے برخاست کیا گیا ہے جب آگے چل کر وہ درد سر بن گئے، یا جب انہوں نے اکثریت گنوادی، یا پھر انتہائی نااہل ثابت ہوئے۔ صرف آخری وجہ ہی موجودہ منظرنامے میں بیٹھتی دکھائی دیتی ہے۔سویلین کاموں میں مداخلت کے ذریعے اس قسم کی خلیج کو پُر کرنے کی کوشش کی جاچکی ہے۔ تاہم تھوڑی سی وزارتیں اور کچھ صوبے اب بھی پی ٹی آئی کے پاس ہیں۔ کیا حقیقی طاقتوں کو یہ سوچ ستا رہی ہے کہ کہیں موجودہ صورتحال میں ان کی اپنی ساکھ تو داؤ پر نہیں لگی ہوئی؟چند مشاہدہ کاروں کے ذہن میں یہ سوال بھی ہے کہ جب (جی ڈی اے، باپ وغیرہ جیسی) جماعتوں کو وفاداریاں بدلنے کے لیے کہا جاسکتا ہے ایسے میں مدرسے کے مشتعل طالب علموں کے ذریعے اسلام آباد کا دلکش سکون غارت کرنے کی حکمت عملی کا انتخاب کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے۔آخری اہم بات یہ کہ، آگے چل کر ایک قابلِ عمل نظام حکومت جوڑنے کا مسئلہ بھی درپیش ہوگا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ممکن ہے پارٹی میں داخلی تبدیلی آئے اور شاہ محمود قریشی وزیر اعظم بن جائیں۔ تاہم اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو پی ٹی آئی کے اے ٹی ایم اور ڈرائیور یعنی جہانگیر ترین سے رنجش کے ساتھ وہ انتشار اور تقسیم کی شکار پی ٹی آئی کو یکجا رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے؟جبری طور پر عہدے سے ہٹائے گئے اور غصے سے آگ بگولہ عمران خان کو سنبھالنا بھی کافی کٹھن ہوگا۔ قومی حکومت کے قیام کی افواہیں بھی گردش میں رہی ہیں۔ تاہم اپوزیشن کے ساتھ مل کر بنایا گیا قومی حکومتی نظام ظاہر ہے کہ زیادہ تابع نہیں ہوسکتا اور یہ لڑائی جھگڑوں سے بھرپور اپنے لیے کھودے گئے گڑھے سے کسی طور پر کم نہیں ہوگا۔ ان تمام رکاوٹوں کے پیش نظر متوسط طبقے کے سیدھے سادے حلقوں میں اب بھی مقبول حکومت کے نااہل چہرے کا بوجھ سر پر لیے حکومت کو کھینچتے رہنا ہی شاید ایک سب سے اچھے آپشن کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ 2003ء کے دھاندلی شدہ ایوان کو اس کی مدت پوری کروانی میں مدد فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اس وقت طویل عرصے سے جنرل اور صدارت کے عہدے پر فائز صدر کی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی شدید مخالفت حکومت برقرار رکھنے اور اسے طویل وقت تک کھینچنے میں مددگار ثابت رہی۔ آیا اسی قسم کی مخالفت اس بار بھی کام دکھا سکتی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔سویلین چہرے والی حکومتوں کی مختصر مدتیں اور بُری حکمرانی دراصل بیرونی دخل اندازی اور چالبازیوں کی بے کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے۔ ماضی کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ چالوں کے نتیجے میں وجود پانے والے ڈھانچوں کے مقابلے میں منتخب حکومتیں، اپنی تمام تر حماقتوں کے باوجود، پھر بھی بہتر رہتی ہیں۔ لہٰذا غیر منتخب کھلاڑیوں کے لیے بہترین پالیسی یہی ہے کہ وہ سیاست سے دور رہیں اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے حقیقی اکثریت کو ایوان تک پہنچنے دیں۔ اگر پہلے سے یہ سوجھ بوجھ ہوتی تو گزشتہ 70 برسوں کے دوران ہم 7 سازشی طریقوں کے ذریعے 2 درجن رہنماؤں کو جبراً عہدے سے فارغ ہوتے ہوئے نہیں دیکھتے۔یہ مضمون 24 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر نیاز مرتضیٰ لکھاری ایک سیاسی و معاشی تجزیہ کار اور یو سی بارکلے کے سنیئر فیلو ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔