اگر مولانا فضل الرحمٰن اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو؟


جمعیت علمائے اسلام (ف) (جے یو آئی ایف) نے اکتوبر میں اسلام آباد کو مفلوج بنا کر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت گرانے کے لیے اپنی کمر کَس لی ہے۔ ماہِ اکتوبر روسی اور چینی انقلابوں میں بھی بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم جے یو آئی ایف کا مقصد کچھ خاص ویسا نہیں جیسا ان بڑے واقعات کے پیچھے کارفرما تھا۔
روسی زاروں جیسی غیر انتخابی حکومتوں کا عوامی احتجاجی مظاہروں کے ذریعے خاتمہ لانے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ یورپی یونین کے انتخابی مشن کی رپورٹ سے نواز شریف کو زندگی بھر کے لیے انتخابی دوڑ سے بے دخل کرنے اور ہارس ٹریڈنگ میں غیر انتخابی اداروں کا مشکوک کردار ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم جب تک یہ خدشات مناسب تحقیقات کے ذریعے سچ ثابت نہیں ہوجاتے تب تک پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرنا غلط ہے۔ اس جماعت کی بُری حکمرانی بھی اس مطالبے کو جائز نہیں ٹھہراتی۔
اس معاملے پر جے یو آئی ایف کی جانب سے ممکنہ طور پر مذہب کا استعمال بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ چونکہ اخلاقی منطق پارٹی کو اپنا مؤقف بدلنے پر مجبور نہیں کرے گی (البتہ لالچ یا جبر ہو تو اور بات ہے)، اس لیے ہم تاریخ کے اسباق کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی یہ تجزیہ کرسکتے ہیں کہ آیا اگر یہ جماعت اپنا مطالبہ لے کر آگے بڑھتی ہے تو اس کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں۔
حکومتی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو وہ حکومتیں طویل چلیں جو فوج سے جڑی رہیں، اس کے بعد منصفانہ انتخابات سے تشکیل پانے والی اسمبلیاں کسی حد تک طویل چلیں، جبکہ ان سب سے کم طوالت 1950 کی دہائی اور 1990 کی دہائی میں دھاندلی زدہ سویلین حکومتوں کی رہی۔
غیر انتخابی طاقتوں کو ہی یکایک اقتداری خاتمے کی وجہ قرار دیا جاتا ہے، ہر بار حکومت کے خاتمے پر نظر آنے والی افراتفری کی شدت اور اُسے پیدا کرنے کے مختلف طریقہ کار سے ہمارے سیاسی عدم استحکام اور اس کی تباہ کن تخلیق ظاہر ہوتی ہے۔ احتجاجی مظاہروں نے صرف جنرل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اہم کردار ادا کیا۔ لیکن ان احتجاجی مظاہروں کے پیچھے ڈیپ اسٹیٹ کی ممکنہ خاموش پشت پناہی کا اہم کردار رہا ہوگا، یعنی کوئی بھی صورت رہی ہو، آخری مرضی اسی ڈیپ اسٹیٹ کی چلی۔ قتل، فوجی بغاوت اور صدارتی حکم کے ذریعے اقتدار کا خاتمہ لانا ممکن نہیں رہا ایسے میں صرف جبری روانگی، احتجاجی مظاہرے، اسمبلی ووٹ اور عدالتی فیصلے ہی وہ طریقے رہ جاتے ہیں جن سے حکومت گرانا ممکن ہے۔ کیا وہ نئے طریقے ایجاد کرسکتے ہیں؟