فحش فلمیں بنانے والے لڑکیوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں، میا خلیفہ
قابل اعتراض اور فحش مناظر فلمبند کروانے والی سابق اداکارہ، سوشل میڈیا اسٹار اور اسپورٹس اینکر میا خلیفہ کا کہنا ہے کہ پورن انڈسٹری میں لڑکیاں مجبوری کے تحت آتی ہیں اور ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے ایسی فلمیں بنانے والے ان کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
لبنانی نژاد امریکی ماڈل اور سوشل میڈیا اسٹار 26 سالہ میا خلیفہ نے پہلی مرتبہ اپنے ماضی پر کھل کر بات کی اور اعتراف کیا کہ وہ مجبوری کے تحت فحش فلموں میں گئیں اور اب تک انہیں اپنے ماضی پر شرمندگی ہے۔
لبنان سے تعلق رکھنے والے کیتھولک مسیحی خاندان میں پیدا ہونے والی میا خلیفہ انتہائی کم عمری میں اہل خانہ سمیت امریکا منتقل ہوگئی تھیں، جہاں انہوں نے 2014 کے اختتام اور 2015 کے آغاز کے دوران چند ماہ تک فحش فلموں میں کام کیا تھا۔
فحش فلموں میں کام کرنے کی وجہ سے انہیں شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے دھمکیاں بھی دی گئیں، جس کے بعد انہوں نے انڈسٹری کو خیرباد کہہ دیا۔
چند ماہ تک پورن انڈسٹری میں کام کرنے والی میا خلیفہ انتہائی کم وقت میں دنیا بھر میں اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے ممالک میں مشہور ہوگئی تھیں اور انہیں نمبر ون اداکارہ بھی قرار دیا گیا تھا۔
فحش فلم انڈسٹری چھوڑنے کے بعد میا خلیفہ نے بطور سوشل میڈیا اسٹار کام کا آغاز کیا اور انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مختلف برانڈز کی تشہیر کرنا شروع کی اور ساتھ ہی انہوں نے اسپورٹس اینکر کے طور پر بھی کام کرنا شروع کیا۔
فلم انڈسٹری چھوڑنے اور دیگر شعبوں میں آنے کے بعد میا خلیفہ کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اب انہوں نے پہلی مرتبہ خود کو پیش آنے والی مشکلات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ پورن فلم انڈسٹری کے حوالے سے بھی کھل کر بات کی۔
میا خلیفہ نے اپنی خاتون دوست میگن ایبٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ انہوں نے فلموں میں کام کرنے سے محض 12 ہزار امریکی ڈالر یعنی پاکستانی لگ بھگ 15 لاکھ روپے کمائے۔
انہوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ فحش فلموں میں کام کرنے والی اداکاراؤں کو کثیر رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
انہوں نے پورن فلم انڈسٹری کے بھیانک چہرے کو سامنے لاتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس انڈسٹری میں کام کے لیے آنے والی کم عمر لڑکیوں کا استحصال کیا جاتا ہے، انہیں اپنا حق نہیں دیا جاتا، انہیں بلیک میل کرکے انہیں دبایا جاتا ہے۔
میا خلیفہ کے مطابق اس انڈسٹری میں زیادہ تر لڑکیاں مجبوری کے تحت آتی ہیں اور چوں کہ وہ مجبور ہوتی ہیں، اس لیے اس انڈسٹری میں کام کرنے والے افراد انہیں بلیک میل کرتے ہیں اور ان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
سوشل میڈیا اسٹار کا کہنا تھا کہ فحس فلمیں بنانے والے افراد لڑکیوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھاکر انہیں دبائے رکھتے ہیں، انہیں نہ تو مناسب معاوضہ دیتے ہیں اور نہ ہی انہیں اپنی مرضی سے کام کرنے دیتے ہیں بلکہ ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔