نقطہ نظر

دماغی تطہیر کے ذریعے ذہنی غلامی-2

جین ڈکسن کی تمام پیشین گوئیاں ایف بی آئی کے مقاصد کی تکمیل کے لیے مشتہر کی گئی تھیں، جس کی وہ خفیہ ایجنٹ تھیں۔

(دوسرا حصہ)

اس مضمون کے پہلے حصے کا مطالعہ کرنے کے لیے کلک کیجیے۔

ستائیس دسمبر 1999ء کو امریکہ کے خفیہ ادارے ایف بی آئی نے جو فائلیں جاری کی تھیں، اس سے یہ نکشاف ہوا تھا کہ مشہور و معروف مغربی نجومی جین ڈکسن ایف بی آئی کی ایجنٹ تھیں۔

تقریباً نصف صدی تک دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی پیشین گوئیوں کی بناء پر انسانوں کی ایک بڑی تعداد کی توجہ حاصل کرلینے والی جین ڈکسن دراصل اپنی قوم کی پوری دنیا پر حکمرانی قائم کرنے کی تگ ودو میں مصروف تھیں۔ مستقبل کے بارے میں اُن کی تمام پیشین گوئیاں امریکی خفیہ ادارے کے مقاصد اور مفادات کو پورا کرنے کے لیے مشتہر کی گئی تھیں۔

جین ڈکسن دوسری عالمگیرجنگ سے چند سال قبل جرمنی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئی تھیں۔ بچپن میں ان کے والدین نقلِ مکانی کرکے پرکیلی فورنیامیں منتقل ہوگئے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اُن کی  تقریباً 99 فیصد پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔

ان کی مشہورپیشین گوئیوں میں ویت نام کی جنگ، صدر کینیڈی کی موت، صدر سوئیکارنو کی معزولی، نہرو اور گاندھی کی موت، کمیونسٹ چین کے حوالے سے کی جانے والی اُن کی پیشگوئیوں کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔

دنیا کے مستقبل کے حوالے سے  جین ڈکسن نے کہا تھا کہ  1968ء سے دنیا میں اسلحہ کی دوڑ تیز ہو جائے گی، چلیں یہ توبات تو پوری ہوگئی، لیکن اُن کی یہ پیشگوئی کہ تیسری عالمگیر جنگ  1981ء میں شروع ہوگی جس کا سلسلہ بیس سال جاری رہے گا،  کہاں رہ گئی؟

بہت سے لوگ جو جین ڈکسن کی روحانی صلاحیتوں کے ذہنی طور پر مرید ہوچکے ہیں، وضاحتیں پیش کرسکتے ہیں کہ دنیا کے اتنے ملکوں میں خانہ جنگی جاری ہے اور امریکہ اتنے ملکوں میں فوجیں اُتار چکا ہے وغیرہ وغیرہ، ہم اس حوالے سے معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہیں گے کہ آپ کو وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس  سے کہیں زیادہ مستند اعدادو شمار ہمارے پاس موجود ہیں لیکن عالمی جنگ کیا ہوتی ہے؟ کیا آپ اس کا تصور کرسکتے ہیں؟ دو عالمی جنگوں نے دنیا کو کس مقام پر پہنچا دیا تھا؟ کیا آپ کو اس کا اندازہ ہے؟ اور ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ ہونے والی عالمی جنگ کی تباہی کا تصور تو عام انسان کے لیے ایک امرِ محال ہے۔

تو جناب ہمیں یہ ماننا ہی پڑے گا کہ تیسری عالمی جنگ برپا نہیں ہوئی! البتہ جین ڈکسن کی پیشگوئی اور اس کے بعد اس حوالے سے کیے گئے تجزیوں اور تبصروں پر مبنی کتابوں، مضامین، دستاویزی فلموں اور فیچر فلموں نے دنیا بھر میں تیسری عالمی جنگ کا خوف ضرور پھیلا دیا تھا، جس کے نتیجے میں اسلحے کی فروخت میں کس قدر اضافہ ہوا ہوگا، اس حوالے بھی ہمیں غور کرنا چاہیئے۔

جین ڈکسن کی ایک مشہورمعروف پیشین گوئی یہ تھی کہ 5 فروری 1962ء کو ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو دنیا میں انقلاب کا باعث بنے گا اور بیسویں صدی کی آخری دہائی  میں ساری دنیا کو ایک واحد عقیدے پر متحد کردے گا۔ اس بچہ کے ذریعہ نیا مذہب عالمِ وجود میں آئے گا جوخدا تعالیٰ کی دانائی اورحکمت کاسبق دے گا اورسب لوگ اس پرایمان لائیں گے۔

دنیا کو اس عظیم شخصیت کی روحانی قوت کا احساس  1980ء تک ہوسکے گا۔ اس کے بعد آنے والے دس سالوں میں دنیا کی حالت بدل جائے گی،  1999ء تک وہ بہت زیادہ طاقتورہوجائے گا اوردنیا بھر کے لوگ اس کی صداقت سے آگاہ ہو جائیں گے۔

جین ڈکسن کا کہنا تھا کہ ”جس امن کی دنیا کو تلاش ہے وہ 1999ء تک قائم ہوسکے گا۔“

اس وقت لوگوں میں ایک خاص طرز کا روحانی انقلاب آچکا ہوگا۔ امریکہ کوچین سے لڑنا پڑے گا، روس اورچین کی جھڑپیں شدید نہ ہوں گی مگر امریکہ اپنی عیش وعشرت کی فراوانی کی وجہ سے بے حد تباہ ہوجائے گا اور جنگ میں لوگوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوجائے گی۔ آخرکار ایک مقدس شعلہ نمودار ہوگا جو دنیا کے لیے پیغامِ رحمت بنے گا اور دنیا کے لیے مکمل امن کا سبب بن جائے  گا۔

جین ڈکسن نے کہا تھا کہ 1980ء کے بعد کا زمانہ بے انتہا ہنگامہ خیز نظر آتا ہے، مگر اس لڑکے کی طاقت میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے  گا۔ 1999ء میں وہ تمام روئے زمین پر امن قائم کردے گا اور عالمگیر حکومت کا سربراہ بن جائے گا۔

آپ کو یاد آگیا ہوگا کہ ہمارے ملک میں کئی روحانی بزرگوں نے ایف بی آئی کی ایجنٹ جین ڈکسن کی اس پیشگوئی کو اپنے الفاظ میں دوہرا کر، خود کو اس پیشگوقرار دیتے ہوئے کس قدر شہرت حاصل کی اورلاکھوں افراد کو اپنے اردگر جمع کرلیا۔ امیدوں کے جالے میں اپنا گھر بنانے والے بے عمل لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اُن روحانی بزرگوں کی عقیدت مند بن گئی۔ کئی ایک نے ڈھکے چھپے لفظوں میں اور کئی نے ببانگِ دہل خود کو 1962ء میں پیدا ہونے والا وہ بچہ قرار دے ڈالا جو مذاہب عالم میں انقلاب برپا کرنے والا تھا اور اُس کے ہاتھوں دنیا ایک نئے دور میں داخل ہونے والی تھی، جہاں امن و سکون انسانوں کا منتظر تھا۔

لیکن آج اس بچے کی عمر چالیس برس سے کوئی ایک عشرے تو زیادہ ہوچکی ہے، نہ تو کسی عظیم شخصیت کی روحانی قوت نے دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا اور نہ ہی کوئی ایسی تعلیمات سامنے آسکیں جو مذاہب عالم میں انقلاب برپا کرسکیں۔

ہاں البتہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی اس مرحلےمیں داخل ہونے کے قریب ہے کہ اب انسانی اعضاء پرنٹر کے ذریعے تخلیق کیے جاسکیں گے۔

ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے یہ انکشاف کہ جین ڈکسن ایف بی آئی کی ایجنٹ کے طور پر کام کرتی تھیں، بہت ہی زیادہ چونکا دینے والا ثابت ہوگا! شاید بہت سوں کو اس پر یقین ہی نہ آئے، لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا بھی شاید اتنا آسان نہ ہو کہ دنیا بھر میں اور خاص طور پر مسلم ممالک میں عالمی اداروں کے خفیہ تنخواہ دار مختلف معتبر و مقدس صورتوں میں اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

بہت سے تو ایسے ہیں، جو بلامعاوضہ ہی اپنی ساری جدوجہد کا ثمر عالمی طاقت کو بہم پہنچا رہے ہیں اور بزعم خود یہ خیال کیے بیٹھے ہیں کہ وہ عالم اسلام کی عظیم الشان خدمت فرما رہے ہیں۔

عالمی خفیہ اداروں کے تنخواہ داروں کے فرائض کا بنیادی ہدف مسلمان معاشروں میں تفرقہ و انتشار کو ہوا دینا اور جذباتی نعروں کے سحر میں گم کرکے خوش آئند مستقبل کے خوابِ غفلت میں مبتلا کردینا شامل ہے۔

ہمارا تو خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت گزشتہ ہزار سالوں سے اسی قسم کی شخصیات کے سحر میں مبتلا رہی ہے۔

آج ایسی شخصیات عالمی طاقتوں کے مفادات پورے کر رہی ہیں تو صدیوں پہلے ایسے لوگ مطلق العنان حکمرانوں کے ظلم و جبر پر پردے ڈالنے، ملوکیت کو تحفظ دینے اور عام مسلمانوں کو ذہنی پستی کے عمیق غار میں دھکیل دینے کے لیے فقہی حیلے تراشا کرتے تھے، فروعی معاملات کا ہوّا کھڑا کیا کرتے تھے اور مسلمانوں کی اکثریت اپنی جہالت کے سبب دین و مذہب کے نام پر اپنی جانیں قربان کرتی جاتی تھی۔

 آج بھی مسلمان معاشروں میں لوگوں کی اکثریت ایسی ہی شخصیات کے زیرِ اثر ہے۔

آپ خود جائزہ لے لیجیے کہ مسلمان معاشروں میں اصلاح احوال کے لیے شروع کی جانے والی تمام تحریکوں کے مقاصد محض اس حد تک ہی محدود نظر آتے ہیں کہ زبان، رہن سہن اور دسترخوان کو مغربی معاشروں سے جدا گانہ کیا جاسکے۔ کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ ہم مغرب کی پیروی کی وجہ سے زوال پذیر ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں شخصیت پرستی، اسلاف پرستی، روایات پرستی، کلچر پرستی، ظاہر پرستی، جاہ پرستی، شہرت پرستی، دولت پرستی، فرقہ پرستی، ماضی پرستی، پیر پرستی، علماء پرستی اور نجانے کون کون سے پرستیوں کی بیماریاں تو اس وقت سے پھیلی ہوئی ہیں، جب مغربی معاشرے زوال پذیر تھے اور دنیا مسلم معاشروں کی اسی طرح پیروی کرتی تھی، جیسی کہ آج مغربی معاشروں کی، کی جاتی ہے۔

میرا ایسے دانشوروں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ جب وہ خود ببانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے اور ایک آفاقی دین ہے تو پھر مشرق و مغرب کی تفریق کیوں؟ اور مغربی تہذیب کا واویلا کیوں مچایا جارہا ہے؟

لہٰذا یہ کہنا کہ عالمی طاقتیں برین واشنگ کے ذریعے ہمیں اپنے طور طریقوں کا پیروکار بنا رہی ہیں، زائد از بات ہوگی، اس لیے کہ وہ برین واشنگ کے ذریعے ہمارے معاشروں میں ایسی صورتحال پیدا کررہی ہیں کہ ہم ہمیشہ اُن کے آلۂ کار بنتے رہیں اور ان کی بچھائی گئی جنگی بساط پر ان کے مہروں کی طرح استعمال ہوتے رہیں۔

چنانچہ ہمارے ہاں مغربی معاشروں کے خلاف نفرت انگیز نظریات اور عزائم کا مقصد بھی ہمیں تو عالمی طاقت کے مفادات کو پورا کرنا محسوس ہوتا ہے۔


جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔