اسنوکر میں ہم سا ہو تو سامنے آئے
یہ کچھ دنوں پہلے ہی کی تو بات ہے کہ جب پورا پاکستان اس فکر میں مبتلا تھا کہ قومی ٹیم انگلینڈ اور ویلز میں منعقدہ آئی سی سی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچ پائی گی یا نہیں، اسی دوران ایک دوسرے کھیل میں پاکستان نے غیر معمولی فتح اپنے نام کی جس کے بارے میں زیادہ تر پاکستانی بے خبر رہے۔
قومی اسنوکر کھلاڑیوں نے دوحہ میں یکے بعد دیگرے 4 اسنوکر مقابلوں میں حصہ لے کر 16 تمغوں میں سے نصف درجن تمغے جیت کر ہمارا سر فخر سے بلند کیا، ان میں سے 2 طلائی، ایک چاندی اور 3 کانسی کے تمغے شامل ہیں۔ ان میں سے طلائی تمغے خاص اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ روایتی حریف بھارت کو ہرا کر حاصل کیے گئے ہیں۔
غیر اولمپیائی کھیل اسنوکر کو ملک میں کافی ابھار مل رہا ہے۔ انفرااسٹریچکر کی محرومیوں کے باوجود پاکستان کے اسنوکر کھلاڑیوں کے پاس وقت کی کمی نہیں اور انہوں نے عالمی مقابلوں میں اعزازات جیت کر ایک بار پھر اپنا لوہا منوایا ہے۔
چاہے جونیئرز ہو یا مینز ورلڈ ٹائٹلز، ایشین ہو یا ماسٹرز ٹائٹلز، 6 ریڈز ہو یا 15 ریڈز یا پھر دنیا کے کسی حصے میں منعقد ہونے والا کوئی اسنوکر مقابلہ ہو، پاکستانی کھلاڑیوں نے ہر مقابلے میں اعلیٰ مقام حاصل کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کا کوئی ثانی نہیں۔
باکسنگ کی طرح اسنوکر کے مقابلوں میں انٹرنیشنل بلیئرڈز اینڈ اسنوکر فیڈریشن (آئی بی ایس ایف) اور ایشین کنفیڈریشن آف بلیئرڈز اسپورٹس (اے سی بی ایس) کی جانب سے سیمی فائنل میں ہارنے والے کھلاڑیوں کو کانسی کے تمغے دیے جاتے ہیں۔
اس بار اسجد اقبال، بابر مسیح اور پہلی بار کسی مقابلے میں حصہ لینے والے ذوالفقار اے قادر نے قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔ ذوالفقار کے سوائے باقی تین کھلاڑی کافی تجربہ رکھتے ہیں، یہ تین کھلاڑی بین الاقوامی میدان میں بھی یادگار کامیابیاں حاصل کرچکے ہیں۔ پاکستان فیڈریشن کے محدود مالی وسائل کی وجہ سے کھلاڑیوں نے غیر ملکی دورے کے اخراجات میں خود بھی حصہ ڈالا۔
لیکن اس دورے اور اس میں کامیابی سے اسنوکر کھلاڑیوں کی قسمت ضرور جاگ اٹھی۔ ذوالفقار کے علاوہ مقابلے میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں نے تقریباً 10، 10 لاکھ جبکہ ذوالفقار نے تقریباً 5 لاکھ روپے کا انعام حاصل کیا۔
گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ٹاپ کھلاڑیوں کی مالی حیثیت میں اچھی خاصی بہتری آئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر نے مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے اپنے آبائی شہروں میں اسنوکر کلبس کھولے ہوئے ہیں۔ سابق عالمی چیمپئن محمد آصف، سابق عالمی نمبر 2 محمد سجاد، 5 مرتبہ نیشنل بینک آف پاکستان کپ چیمپئن اسجد اقبال، ہونہار کھلاڑی محمد ماجد علی، سابق انڈر 18 چیمپئن محمد نسیم اختر اور ٹیلنٹ سے بھرپور حارث طاہر کو نیشنل بینک آف پاکستان نے ملازمت فراہم کی ہوئی ہے، یہاں پر یہ واحد مالیاتی ادارہ ہے جو اسنوکر کے کھلاڑیوں کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔
تاہم، یہاں ایسے بھی کئی اچھے اسنوکر کھلاڑی ہیں جنہیں محدود وسائل کے باعث ایک ساتھ اپنے اہل خانہ کی دیکھ بھال اور کھیل پر توجہ دینے میں کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور کئی ایسے بھی ہیں جنہیں نوکری کی ضرورت ہے۔ ایسے زیادہ تر کھلاڑیوں کا تعلق نچلے اور متوسط طبقے سے ہے۔
تقریباً ایک دہائی قبل پاکستان بلیئرڈز اینڈ اسنوکر فیڈریشن (پی بی ایس ایف) نے ایک اچھا قدم یہ اٹھایا تھا کہ ٹاپ 8 کھلاڑیوں اور 4 جونیئر کھلاڑیوں کو ماہانہ معاوضہ دینے کے لیے 1 لاکھ روپے کی رقم مختص کردی تھی۔ اس نظام کے تحت ٹاپ رینک رکھنے والے کھلاڑی کو 12 ہزار جبکہ دوسرا رینک رکھنے والے کو 10 ہزار روپے دیے جاتے تھے۔ 3 سے 8 کی رینکنگ میں شامل کھلاڑیوں کو 7، 7 ہزار جبکہ ٹاپ چار جونیئر کھلاڑیوں کو بھی 7، 7 ہزار روپے دیے جاتے تھے۔
پی بی ایس ایف سال میں 3 مرتبہ یعنی نیشنل اسنوکر چیمپئن شپ، نیشنل بینک آف پاکستان اور جوبلی انشورنس کپ کے مقابلوں کے رینکنگز کا اعلان کرتی ہے۔ چوتھی رینکنگ کے لیے مقابلہ ایک عرصے سے منعقد نہیں ہو رہا ہے۔
کامیابیوں کی تاریخ
ملک میں اسنوکر کو اس وقت عروج ملا جب مایہ ناز کھلاڑی محمد یوسف 1994ء میں جوہانس برگ میں منعقدہ عالمی اعزاز کے فائنل میں نئی بلندیاں چھوتے ہوئے آئس لینڈ کے جاہینز آر جوہانسن کو 9-11 فریمز سے شکست دے کر اعزاز اپنے نام کیا، اس وقت ان کی عمر 67 برس ہے۔
یہ وہ آخری سال تھا کہ جس میں 4 عالمی اعزازات (اسنوکر، ہاکی، اسکوائش اور کرکٹ) پاکستان کے نام تھے۔
اسی طرح فیصل آباد کے محمد آصف نے بھی 2012ء میں بلغاریہ کے شہر صوفیہ میں منعقد فائنل میں انگلینڈ کے گیری ولسن کو 8-10 فریمز سے شکست دی تھی۔
بعدازاں 2017ء میں ہونہار کم عمر محمد نسیم اختر نے بیجنگ میں منعقدہ انڈر 18 کے عالمی مقابلے کے فائنل میں چین کے لیئی پیفیان کو 3-5 فریز سے ہرا کر عالمی انڈر 18 چیمپئن کا اعزاز حاصل کیا۔ 2013ء میں آصف اور سجاد کی جوڑی نے بھی آئرلینڈ میں عالمی ٹیم کا اعزاز اپنے نام کرکے پاکستان کا نام روشن کیا، جبکہ 2017ء میں آصف نے بابر کو جوڑی دار بنا کر ایک بار پھر عالمی ٹیم کے مقابلے میں فتح حاصل کی۔