پاکستان کی ریلوے لائنز اور ان کی کہانیاں
سردیوں کی صبح تھی اور ایک چھوٹا ویران ریلوے اسٹیشن تھا۔
اسٹیشن کی عمارت اور بے رونق ڈھلوان پر ریلوے ٹریک کے درمیان چند روکھے سوکھے پودے لگے ہوئے تھے، جبکہ تاریک پُراسرار پہاڑوں نے جیسے اسٹیشن کو محصور بنایا ہوا تھا۔
یہ تھا بلوچستان کے بولان پاس کے دل میں واقع ہروک اسٹیشن۔
عمارت کے سامنے موجود بینچ پر کوئی شخص سرمئی شال اوڑھے لیٹا ہوا تھا۔ ہماری ٹرالی کے بریک کی آواز سن کر اس نے اپنے سر سے تھوڑا کپڑا ہٹایا اور نیند اور تھکن سے بھری آنکھوں سے ہمیں دیکھا۔ ٹرالی چلانے والے آدمیوں کو پہچان کر اس نے بے جان سا ہاتھ ہوا میں لہرایا اور پھر شال میں خود کو سمالیا۔ جب ہم ڈھلوان پر نیچے کی طرف آگے بڑھنے لگے تو ٹرالی کی رفتار ایک بار پھر تیز ہوگئی۔
1995ء کے مارچ میں ریلوے سے وابستہ دوستوں نے مجھے ٹرالی کے ذریعے نیچے بولان پاس تک لے جانے کے لیے انتظامات کیے تھے۔ مجھے بولان پاس کے مغربی سِرے سے لے کر تقریباً 25 کلومیٹر دُور جنوب مشرق میں واقع نیچے کوئلے کی کانوں کے شہر مچھ تک جانا تھا۔
ٹرالی کو ایک بار دھکا دینے کی دیر تھی اور کششِ ثقل کی قوت سے یہ چیختی چلاتی کھڑی ڈھلوان پر نیچے کی طرف دوڑ اٹھی۔ اس ڈھلوان پر کسی وقت میں براڈ گیج اسٹیم انجنز کو چلانا بھی ناممکن تصور کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: میٹر گیج ریلوے سسٹم: تاریخ، اہمیت، اور تباہی
بولان پاس کی اس کھڑی ڈھلوان کے باعث ہی ریلوے انجینئرز کوئٹہ کو باقی برٹش انڈیا سے جوڑنے کی خاطر ریلوے لائن سبی سے شمال کی طرف ناری گورج اور چھپڑ رفٹ سے گزارتے ہوئے لے گئے۔ تاہم عدم مستحکم ارضیاتی ساخت اور رفٹ پر مسلسل چٹانوں سے گرتی کیچڑ اور پتھروں نے برٹش راج کے ریلوے انجینئرز کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ اگر وہ قلیل وقت میں قندھار پہنچنا چاہتے ہیں تو انہیں ایک دوسری ریلوے لائن بنانی ہوگی۔ قلیل وقت نہایت اہمیت کا حامل تھا۔
پہلی افغان جنگ (1839ء-1942ء) میں زبردست شکست کھانے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو افغانستان کی طرف روسی پیش قدمی کے خدشات لاحق تھے۔ حالات 19ویں صدی کے دوسرے حصے میں اس وقت بدتر ہوئے جب زاری روس اور وکٹوریائی برطانیہ کے درمیان تنازعات اپنی انتہائی حد تک پہنچ گئے، اور دونوں ہی وسطی ایشیا پر اپنی سلطنت کا غلبہ چاہتے تھے۔
چونکہ ریلوے فوجیوں کی نقل و حمل کا ایک سب سے تیز ترین ذریعہ تھا، لہٰذا روس نے تیزی سے ایشیائی صحراؤں میں ڈان ندی سے مشرق کی طرف ریلوے لائن بچھانے کا کام شروع کردیا، اور پھر ٹھیک اسی طرح برطانوی انجینئروں نے بھی جلدی جلدی پورے برِصغیر اور سیلمان ماؤنٹین اور بولان پاس کی چونا پتھر اور سلیٹی پتھر کی رکاوٹوں کو چیرتے ہوئے ریلوے لائن بچھانا شروع کردی۔
دوسری افغان جنگ (1878ء-1880ء) کے خاتمے کے 7 برس بعد پہلی لائن چھپڑ رفٹ سے گزرتے ہوئے کوئٹہ پہنچی۔ لیکن لینڈ سلائڈنگ اور سیلابوں نے تعمیری کام کے دوران اس راستے کو طاعون سے متاثر کردیا، یوں ایک متبادل لائن کی ضرورت ناگزیر ہوگئی۔ متبادل راستے کے لیے بولان پاس کی مستحکم ارضیاتی ساخت کافی مناسب محسوس ہوئی۔
ابتدائی طور پر سبی کی طرف سے لائن کو رند علی (اس دور کے برطانوی نقشوں میں یہ نام رندلی لکھا ہوا ہے) کے گاؤں تک پہنچنے کے لیے گھوم کر مشرق سے مغرب تک بچھائی جانی تھی، جبکہ یہاں لائن کو شمال مغرب کی طرف موڑ کر کنڈلانی گورج سے گزارتے ہوئے ہیروک تک لانا تھا۔
1885ء میں گرمیوں کی ابتدا کے ساتھ ہی دھیرے دھیرے لائن بچھانے کا کام شروع کیا گیا۔ جھلسا دینے والی ہواؤں میں مزدور اور انجینئر پورے جی جان کے ساتھ (5 فٹ اور 6 انچ چوڑے) براڈ گیج لائن بچھانے کے کام میں جُٹ گئے۔
گرمیوں کی پریشانی میں اضافہ اس وقت ہوا جب تعمیراتی کام کے کیمپوں میں ہیضے کی وبا پھیل گئی، جس کے نتیجے میں کئی سو مزدوروں کی اموات واقع ہوئی۔ تاہم تمام کٹھن حالات کے باوجود کام جاری رکھا گیا، ممکن ہے کہ جلدی سے ٹھنڈی بلندیوں پر پہنچنے کی خواہش نے ہی انہیں اپنا کام ہر صورت جاری رکھنے کی ترغیب دی ہو۔
اُس سال نومبر کے وسط میں، جب گرمیاں چلی گئی تھیں، یہ ریلوے لائن ہیروک (جہاں سے شال اوڑھے ہوئے شخص نے میری طرف ہاتھ ہلایا تھا) تک سطح سمندر سے 1 ہزار میٹر بلندی پر بچھائی جاچکی تھی۔
اب تھی باری ایک مشکل مرحلے کی۔ دوزان گورج سے گزرتا ہوا ہیروک اور کولپور کے درمیان 12 کلومیٹر کا راستہ اچانک 1790 میٹر کی اونچائی اختیار کرگیا تھا۔ اس قلیل فاصلے میں 390 میٹرز کی اونچائی کی وجہ سے یہ راستہ اس قدر دشوار گزار بن گیا تھا کہ اس دور کے سب سے طاقتور انجن بھی ٹرین کو اس بلندی تک کھینچ کر لے جانے کے قابل نہیں تھے۔
ریلوے کے لوگوں کا اس پر جواب یہ تھا کہ ہیروک اور کولپور کے درمیان ایک چھوٹی سی میٹر گیج (3 فٹ اور 3 انچ پر مشتمل) لائن بچھا دی جائے۔ پھر دشت بیدولت سے گزرتی ہوئی کولپور سے کوئٹہ تک لائن کو دوبارہ بورڈ گیج کردیا جائے۔ دشت بیدولت کی زمین پر سوائے اکا دکا گھاس کے کبھی کچھ نہیں اگتا، البتہ جب یہاں سردیوں میں بارش اور برف باری بہت زیادہ ہوتی ہے تو چند پھول کھل جاتے ہیں۔ (1990ء کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں، مجھے پہلی مرتبہ اس میدان پر جابجا متعدد ٹیوب ویل نظر آئے۔ چند ہی برسوں میں یہ موسمی گندم اور باغات کی زمین بن گئی۔)