اس واقعے نے بھارت بھر کو چونکا دیا اور طبی نظام پر سوالات اٹھنے کے بعد تحقیقات بھی شروع کردی گئی ہے۔
محمد فرقان 21 جون کو ایک حادثے کے نتیجے میں کوما میں چلا گیا تھا اور پیر کو ایک نجی ہسپتال نے اسے اس وقت مردہ قرار دیا جب خاندان کے پاس علاج کے لیے پیسے ختم ہوگئے۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بعد ازاں 'میت' کو ایمبولینس پر گھر بھیج دیا گیا۔
فرقان کے بڑے بھائی محمد عرفان نے بتایا کہ اس واقعے نے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا۔
انہوں نے بتایا 'ہم غمزدہ ہونے کے بعد تدفین کی تیاری کرہے تھے جب ہم نے اس کے جسم میں حرکت کو محسوس کیا، جس پر اسے فوری طور پر ایک دوسرے ہسپتال لے کر گئے جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ زندہ ہے اور اسے وینٹی لیٹر سپورٹ فراہم کی گئی'۔
محمد عرفان کے مطابق 'ہم نے پہلے 7 لاکھ روپے نجی ہسپتال کو ادا کیے تھے اور جب ہم نے انہیں بتایا کہ ہمارے پاس مزید پیسے نہیں بچے تو انہوں نے فرقان کو مردہ قرار دے دیا'۔
لکھنو کے چیف میڈیکل آفیسر نریندرا اگروال نے اس حوالے سے کہا کہ ہم نے واقعے کا نوٹس لیا ہے اور اس کی تحقیقات کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ مریض کی حالت نازک تھی مگر وہ دماغی طور پر مرا نہیں تھا، اس کی نبص چل رہی تھی اور جسمانی طور پر ردعمل ظاہر کررہا تھا، اب اسے وینٹی لیٹر سپورٹ میں رکھا گیا ہے۔