نقطہ نظر

عیدی کس کو اور کیا دی جائے؟

چاند کے اعلان میں تاخیر کے باعث بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ یہ فریضہ الیکشن کمیشن ادا کر رہا ہے

یوں تو عید رمضان کے بعد آتی ہے لیکن منافع خوروں کی عید رمضان شروع ہوتے ہی آجاتی ہے۔

مسلمان عید پر خوشیاں مناتے ہیں، خوشیوں کے لیے ایک عید کم لگے تو 2 عیدیں کرلی جاتی ہیں۔ عید کا چاند نظر آنے سے مطلع کرنا رویتِ ہلال کمیٹی کا کام ہے، شکر ہے وہ اپنا ہی کام کرتی ہے، اگر چاند دیکھنے کے بجائے ڈیم کے لیے چندہ جمع کرنے لگتی تو ہم کیا کرلیتے؟

چاند نظر آنے یا نہ آنے کے اعلان میں تاخیر کے باعث بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ یہ فریضہ الیکشن کمیشن ادا کر رہا ہے، ایسا بالکل نہیں، اگر الیکشن کمیشن یہ ذمہ داری ادا کر رہا ہوتا تو رویتِ ہلال کا اعلان عید کے 2 روز بعد ہوتا۔

عید سے پہلے چاند رات آتی ہے، جس پر خواتین مہندی لگوانے بیوٹی پارلر جاتی ہیں، وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے ہاتھوں پیروں پر کتھے جیسی منہدی لگائی گئی ہے لیکن دراصل چونا لگا کر واپس بھیج دی جاتی ہیں۔ یہ چونا کیونکہ شوہروں ہی کو لگتا ہے اس لیے وہی دیکھ پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض دل جلے شوہر چاندنی رات کو چونا رات کہتے ہیں۔

عید کا ایک لازمی حصہ عیدی ہے، اسی لیے پولیس والے عید کے دنوں میں اپنا حصہ عیدی کے نام پر وصول کرتے ہیں۔ عیدی آپ کو بہت سے کھوئے ہوؤں سے ملوانے کا باعث بنتی ہے جن کی دید کو آپ ترس چکے ہیں، جیسے محلے کا خاکروب، جو گلی میں نظر آجائے تو ہر گھر کے مکین بے خود ہوکر گانے لگتے ہیں ’جانے کتنے دنوں کے بعد، گلی میں آج چاند نکلا۔‘

اسی طرح محلے کے وہ بچے جو آپ کو عین سامنے پاکر بھی سلام نہیں کرتے اور کوئی کام کہا جائے تو ’ایں ایں ایں‘ کی گردان کرکے خود کو اتنا ناسمجھ اور اس کام کے لیے نااہل ثابت کردیتے ہیں کہ آپ ان سے اُسی طرح مایوس ہوجاتے ہیں جس طرح اسٹیبلشمنٹ بعض سیاست دانوں سے، لیکن عید کے روز یہی بچے اتنی عقیدت سے سلام کرتے ہیں جیسے آپ آدمی نہ ہوں مزار ہوں، اور یوں عید ملتے ہیں جیسے انہیں آپ ہی میں مامتا نظر آئی ہو، پھر آپ کے سامنے یوں کھڑے ہوجاتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں ’حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے ’بچہ’ ہوں اگرچہ میں ذرا سا‘۔ دراصل یہ عیدی کی خاموش فرمائش ہوتی ہے، جو پوری کرنی ہی پڑتی ہے۔

’کم بچے خوش حال گھرانہ‘ اور ’بچے دو ہی اچھے‘ کے نعروں پر عمل کرنے والے اُس وقت پچھتا رہے ہوتے ہیں جب عزیز و اقارب 6، 6 اور 8، 8 بچوں کے ساتھ ان سے عید ملنے آرہے ہوتے ہیں۔ عیدی کے لین دین میں ہونے والا خسارہ ان سے کہہ رہا ہوتا ہے کاش ’ہم دو ہمارے دو‘ کے بجائے ’ہر سال آنے دو، وہ بھی دو‘ کے اصول پر عمل کیا ہوتا تو آج ہمیں یہ تجارتی عدم توازن درپیش نہ ہوتا۔

ہم عیدی صرف نقدی کو سمجھتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے، بطور عیدی چھوٹوں کو کوئی بھی تحفہ دیا جاسکتا ہے، بالخصوص وہ طبقہ جس کے پاس نوٹوں کی فراوانی کا عالم یہ ہے کہ ’جس طرف آنکھ اُٹھاؤں تری تصویراں ہیں‘ اس کے چھوٹوں کو عیدی کے طور پر نقدی دینا ایسے ہی ہے جیسے انٹارکٹیکا کے کسی باسی کو ڈیپ فریزر یا ایئرکنڈیشنر کا تحفہ دیا جائے۔

سیاستدان اور حکمران بھی اسی طبقے میں شامل ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ اس عید پر سیاستدان عیدی کے طور پر ایک دوسرے کو ایسا کچھ دیں کہ اگر ان کے باہمی تعلقات خراب ہوں تو اچھے ہوجائیں اور اچھے ہوں تو مزید خوشگوار ہوجائیں۔

دوسری طرف سے بھی ایسی ہی عیدیاں دی جائیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کے بچے پاکستان میں نہیں، چلو کوئی بات نہیں، وہ ’بابائے نیا پاکستان‘ ہیں اس لحاظ سے سارے پاکستانی ان کے مُنّے اور مُنّی ہیں، مگر زیادہ لائق بچے وہی ہیں جو ’بابا‘ کے قریب ہیں۔ سو عیدی ان بچوں کو دی جاسکتی ہے۔ جیسے

صدرِ مملکت عارف علوی عمر ہی میں نہیں بربنائے عہدہ بھی وزیراعظم سے بڑے ہیں، اس لیے انہیں چاہیے کہ عمران خان کو عیدی دیں۔ ان کی عیدی یہ ہوسکتی ہے:

ویسے تو عارف علوی صاحب کی مرضی جو چاہے دیں، لیکن عمران خان کے حزبِ اختلاف کے رہنما کے طور پر کی گئی تقاریر، دعوؤں اور وعدوں کا مجموعہ وزیرِاعظم کے لیے سب سے اچھی عیدی ہوگی۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔