ڈی جی خان کا سفر جس نے کہیں کہیں یورپ کی یاد دلا دی
سفر نامہ ڈی جی خان اور شہر سخی سرور
ایک دن جب چند فوٹوگرافر دوستوں کی سفری تصاویر میں ڈیرہ غازی خان (ڈی جی خان) کی ایک دو شامیں دیکھنے کا اتفاق ہوا تو دل میں خواہش جاگی کہ میں بھی ایسی خوبصورت شاموں کا حصہ بنوں۔
راجن پور سے واپسی پر میرا مختصر سا قیام ڈی جی خان کا بھی تھا جو 2 دنوں پر پھیلتا چلا گیا، بظاہر اس اجنبی سے شہر میں درجنوں جاننے والے مل گئے۔ پھر راجن پور سے پل ڈاٹ کے اسٹاپ تک کا سفر اور لوکل ویگن کا تجربہ خوبصورت سفر کا ایک خوش کن ٹکڑا تھا۔
سڑک کے دونوں اطراف زرعی پاکستان کے کینوس پر سرسوں کے پیلے پھولوں کا ایک آدھ برش سے مارا گیا اسٹروک نظر آتا، گندم کے کھیتوں کی ہریالی، کارپیٹڈ سڑک اور مارچ کے مہینے کا معتدل پن مجھے کہیں کہیں مشرقی یورپ کے کسی حصے میں سفر کی یاد دلا رہا تھا، لیکن جیسے ہی گاڑیاں بے ہنگم اوورٹیک کرتیں یا سڑک کے دونوں اطراف بھرے بازار سے گاڑی کا گزر ہوتا تو خواب بکھرنے لگ جاتے۔
پروفیسر عمران لودھی پل ڈاٹ اسٹاپ پر میرے منتظر تھے، آپ بذات خود ایک سیاح اور محبت میں گندھے ہوئے انسان ہیں اور انہی کی پوسٹ کی ہوئی چند تصاویر نے مجھے جنوبی پنجاب کے اس حصے کو دیکھنے کی تحریک دی تھی۔
میری پہلی خواہش یہی تھی کہ یہاں اترنے والی شام سے ملاقات کی جائے اور میری اس خواہش کے پورے ہونے میں چند ہی گھنٹے باقی تھے۔ ہم کچھ دیر کے لیے ڈی جی خان یونیورسٹی کے کیمپس تک گئے اور یہاں زرعی یونیوسٹی فیصل آباد، جو میری مادرِ علمی بھی ہے، وہاں کے دوستوں، سینئرز اور جونیئرز سے ملاقاتیں ہوئیں۔