نقطہ نظر

فیصل واؤڈا یا فیصل ’وعدہ‘؟

جب سمندر سے تیل نکلے گا تو ہر طرف اتنا تیل ہوگا کہ تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملے گی بلکہ کسی بھی دھرنے کے لیے جگہ نہیں ہوگی۔

فیصل واؤڈا صاحب وفاقی وزیر برائے آبی وسائل ہیں، لیکن ان کے ملازمتوں کی برسات کے عنوان سے مشہور ہونے والے دعوے کے بعد لگتا ہے کہ وہ ’آفاقی وزیرِ خوابی وسائل‘ ہیں۔ انہوں نے نوکریاں برسانے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے بعد لوگ انہیں پیار سے ’فیصل وعدہ‘ کہنے لگے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ فیصل واؤڈا نے واشگاف الفاظ میں خوش خبری سُنائی کہ ’پاکستان میں اتنی نوکریاں آنے والی ہیں کہ یہاں لوگ کم پڑجائیں گے۔ پان والا اور ٹھیلے والا بھی کہے گا مجھ سے ٹیکس لے لو۔‘

کوئی کچھ کہے ہمیں تو فیصل واؤڈا صاحب کی بات پر مکمل یقین ہے۔ ان کے اس وعدے کے پس منظر میں دلیل یا امکانات تلاش کرنا کارِ لاحاصل ہے کیونکہ ’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘۔

کوئی نہیں جانتا ہے اس حکومت کے وزرا کو اپنے اشعار کے لیے مضامین غیب سے ملتے ہیں یا نیب سے۔ آپ دیکھیے گا کہ بقول وزیرِ موصوف کوئی 3 یا 4 ہفتے بعد ’وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے‘ آئے گا اور پوری قوم جھوم جھوم کر گا رہی ہوگی ’اللہ اللہ کتنے پیارے دن آگئے‘، کسی کی زبان پر ہوگا ’آئے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے‘۔

یہ گانا وہ گائیں گے جن کا جیا نہیں مان رہا کہ فیصل صاحب سچ کہہ رہے ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں کہہ رہے۔ اس دعوے پر ہمارے یقین کی بنیاد پانی پر ہے، ارے بھئی سمندر کے پانی پر جس سے تیل نکلنے کی خوش خبری سنادی گئی ہے۔ تیل کا نوکری اور خوش حالی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں ’نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘۔

اس محاورے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ رادھا کار کی طرح تیل سے چلنے والی کوئی مشین ہے جو تیل پی کر ناچے گی، بات یہ ہے کہ جس کے پاس تیل ہو اس کے اشاروں پر ناچنا پڑتا ہے۔ رادھا بے چاری کے ساتھ مسئلہ یہ ہوا ہے کہ جن کے پاس تیل ہے ان کے ہاں ناچنے پر پابندی ہے، چنانچہ نو من تیل والے ناچ دیکھنے سمیت ہر من مانی کے لیے دبئی، امریکا اور یورپ کا رُخ کرتے ہیں۔

خیر بات ہورہی تھی تیل اور خوش حالی کی، تو صاحب جب ہمارے سمندر سے تیل نکلے گا تو ہر طرف اتنا تیل ہوگا کہ تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملے گی، بلکہ کسی بھی دھرنے کے لیے جگہ نہیں ہوگی، اچھا ہوا کہ تیل نوازشریف کے دور میں نہیں نکلا ورنہ دھرنا دینے والوں کی دھرنے کی خواہش دھری کی دھری رہ جاتی۔ سو جب اتنا تیل نکلے گا تو ظاہر ہے ہم تیل میں خودکفیل ہوجائیں گے، بلکہ اتنے ’کفیل‘ ہوجائیں گے کہ سعودی عرب اور کویت وغیرہ سے ’کفیل‘ آکر ہمارے ’رفیق‘ بنیں گے۔

اُدھر سمندر سے تیل ہی تیل نکلے گا اِدھر زمین پر نوکریاں ہی نوکریاں اُگ آئیں گی۔ دو تین کروڑ لوگوں کی نوکری تو بس یہ ہوگی کہ سمندر کے کنارے بیٹھ جاو اور ’تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو‘۔ ویسے تو تیل کی صفائی کے لیے اس سے بے کار اجزا نکالنے کے بجائے اُسے حکمراں اتحاد میں شامل کردینا کافی ہوگا، لیکن کیونکہ حکومت کا مقصد ملازمتیں پیدا کرنا ہے، اس لیے وہ تیل کی صفائی کے لیے کارخانے لگائے گی۔ اب یہ کارخانے اتنے زیادہ ہوں گے کہ سارے بے روزگار انہی میں کھپ جائیں گے، پھر بھی کارکنوں کی گنجائش رہے گی اور لوگوں کو زبردستی پکڑ کر ’کارخانے چلو ورنہ تھانے چلو‘ کہتے ہوئے لایا اور ان کارخانوں میں بھرتی کیا جائے گا۔

یہاں ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آپ ’پڑھی فارسی بیچا تیل‘ کے مشہور محاورے سے اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوں کہ تیل بیچنے کے لیے فارسی پڑھنا ضروری ہے۔ عربوں کو دیکھیے وہ فارسی پڑھے بلکہ بہت سے تو کچھ بھی پڑھے بغیر تیل بیچ رہے ہیں۔

چلیے آپ کو تو ہم نے اس غلط فہمی سے بچالیا، لیکن حکمرانوں کو کسی غلط فہمی اور خوش فہمی سے بچانا ہمارے بس کی بات نہیں، اس لیے یقیناً وہ تیل بیچنے کے لیے فارسی پڑھنے کو ضروری خیال کرتے ہوئے پوری قوم کے لیے فارسی پڑھنے کا سرکاری انتظام کریں گے، تاکہ قوم اچھی تیل فروش بن سکے۔ یوں ایک کروڑ کے لگ بھگ فارسی پڑھانے والے اساتذہ کی اسامیاں وجود میں آئیں گی۔

جن سرکاری حکام کو عرصے سے عوام کا تیل نکالنے کی عادت پڑ چکی ہے ان کی یہ عادت ختم کرکے انہیں تیل نکالنے کی تربیت دینے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں ماہرینِ نفسیات اور ماہرین تیلیات کی تقرری کی جائے گی، جو انہیں عوام کو قریب سے دکھا کر سمجھائیں گے کہ ’دیکھو پیارے! ان تِلوں میں اب تیل نہیں ہے‘۔ پھر سمندر دکھا کر بتائیں گے کہ تیل اب یہاں سے نکالنا ہے۔

یہ تو صرف تیل سے متعلق ملازمتیں ہیں، جب یہ تیل دنیا میں بِکے گا اور ہمارے پاس قرضوں اور امداد کے بجائے معاوضے کی صورت میں پیسہ آئے گا تو ہر طرف ادارے ہی ادارے اور نوکریاں ہی نوکریاں ہوں گی۔ بھرتیوں پر بھرتیاں ہونے کے بعد بھی ’اسامیاں خالی ہیں‘ کے اشتہارات آتے رہیں گے۔ نوبت یہ آئے گی کہ افرادی قوت بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑے گی۔ پھر ہوگا یہ کہ امریکی لاہور میں ٹیکسی چلاتے نظر آئیں گے، انگریز کراچی میں گنے کا رس بیچتے دکھائی دیں گے، جرمن پنڈی بھٹیاں میں ڈھابے کھولے بیٹھے ہوں گے، فرانسیسی مردان میں ٹھیلے لگائے ہوں گے۔

اب تک تو ملازمتوں کی کمی کے باعث صورت حال یہ تھی کہ پولیس کی نفری ناکافی ہونے کی وجہ سے پولیس آپریشن میں فیصل واؤڈا صاحب کو پستول لے جانا پڑتا تھا، لیکن کچھ دنوں بعد واؤڈا صاحب ’تجھ کو پَرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘ پر عمل کرتے نظر آئیں گے، اس لیے بہت کم نظر آئیں گے۔


یہ طنزیہ بلاگ ہے۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔