افسانہ: ’کمبختو! تم یونہی غریب ہی رہنا‘
اسے ڈر تھا کہ سرکاری اسکول سے پڑھ کر وہ بھی کم آمدنی والے آدمی نہ بن جائیں تو جس قدر ممکن ہو انہیں انگریزی سیکھنی چاہیے۔
بشیر کا خیال ہے کہ یونہی موٹر سائیکل چلاتے چلاتے اس کی عمر گزر جائے گی اور وہ کبھی بھی اس سے زیادہ ترقی نہیں کر پائے گا حالانکہ آج سے 5 سال پہلے اس کے پاس صرف ایک سہراب سائیکل تھی۔
وہ بچپن سے خواب میں خود کو گاڑی چلاتے ہوئے دیکھتا آرہا تھا، خواب میں اس کا اپنا ایک عالیشان بنگلہ ہے، جس کے گیٹ پر ہمہ وقت 2 مستعد نوجوان بندوقیں اٹھائے پہرہ دے رہے ہوتے ہیں۔ جب بشیر گھر آتا ہے تو وہ اسے سیلوٹ مارتے ہیں اور بھاگ کر گاڑی کا دروازہ کھولتے ہیں، بشیر کا بریف کیس تھام کر ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اپنے مسائل بشیر کو بتاتے ہیں۔ خواب میں بشیر کئی بار ان کی تنخواہ اور بچوں کے اخراجات کے مسائل بھی حل کرچکا ہے۔