’صدارتی نظام یا پارلیمانی نظام‘ کی بحث ایک بار پھر زندہ
ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں آبادی کا ایک حصہ ہمیشہ صدارتی طرز حکومت سے کافی متاثر رہتا ہے۔ حالانکہ 46 برس قبل متفقہ رائے سے منظور ہونے والے 1973ء کے آئین نے پارلیمانی نظام کے حق میں اس سوال کو حل کردیا تھا مگر یہ سوال ہر کچھ عرصے بعد دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے۔
کبھی کبھار تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملے کو یہ جائزہ لینے کے لیے منظر عام پر لایا جاتا ہے کہ آیا صدارتی نظام کی حمایت میں ٹھوس رائے عامہ موجود ہے یا نہیں۔ ان دنوں ایک بار پھر اس سوال کی بازگشت سوشل میڈیا اور چند الیکٹرانک میڈیا اداروں میں سنائی دے رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر موجود چند افراد کی جانب سے صدارتی طرز حکومت کی جوش و ولولے کے ساتھ تعریف کرنے کے باوجود زمینی طور پر موجودہ نظام کو صدارتی نظام سے بدلنے کے حوالے سے کوئی حقیقی حمایت نظر نہیں آتی۔ وفاقی یا صوبائی قانون ساز ایوانوں میں سے کسی ایک نے بھی اس سوال پر کبھی مباحثہ تک نہیں کیا، صدارتی نظام کی حمایت میں قرارداد منظور کرنا تو دور کی بات ہے۔
اگر صدارتی نظام کے لیے تھوڑی بہت حمایت موجود بھی ہے تب بھی اس کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کرنے یا اس کی حمایت میں دلائل دینے میں کچھ غلط نہیں۔ صدارتی نظام کے حمایتیوں کی جانب سے ہر شخص کو دستیاب جمہوری طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے نکتہ نظر کے حق میں قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ بھی ایک قابلِ قبول فعل ہے۔