ایک صدی میں داخل ہونے والے ضعیف العمر سکھر بیراج کی کہانی
ایک صدی میں داخل ہونے والے ضعیف العمر سکھر بیراج کی کہانی
دریا تہذیبوں کے خالق ہوتے ہیں، مصر، روم، فارس، یونان سے لے کر وادئ سندھ کی قدیم تہذیب کے پیچھے دریاؤں کے ہی کمالات ہیں، کاروبار، تجارت، زراعت اور اس پر کھڑی معیشت ان دریاؤں کے ہی دم سے ہے۔
سبط حسن اپنی کتاب ’ماضی کے مزار‘ میں لکھتے ہیں کہ وادئ دجلہ و فرات میں کھیتی باڑی کی ابتدا 7 ہزار سال قبلِ مسیح میں ہوئی۔ ابتدا میں خوراک کی ضروریات، پھر آمدنی اور وقت کے ساتھ ساتھ معیشت، یہ سب زراعت کے ساتھ پانیوں سے جڑی ہیں، ان تمام ضروریات کو دیکھ کر ہی آبپاشی نظام کی ترقی پر غور و غوص ہونا شروع ہوا۔
تحقیقات، ایجادات اور تعمیرات کے نتائج انقلاب کی صورت میں سامنے آتے ہیں، جس کے اثرات برسا برس بلکہ صدیوں تک دیکھے جا سکتے ہیں، پھر وہ انقلاب سائنسی ہو، معاشی ہو یا زرعی۔ اس انقلاب کے پسِ پردہ کارفرما انتھک محنت اور جدوجہد کا ہم میں سے کچھ لوگوں کو ہی علم ہوتا ہے حالانکہ وہ ایک تاریخ ہوتی ہے۔ ان انقلابی تبدیلیوں کے پس منظر میں ہونے والی کوششیں،کاوشیں، محنت اور لگن کا احساس تب تک نہیں ہوتا جب تک اس کا پھل نہ ملے۔
آبپاشی کا پہلا مربوط نظام چین کے شہر سیچوان میں دیوجانگانا اریگیشن نظام کو کہا جاتا ہے جو 256 قبلِ مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اسی طرح شام کا کوانٹینہ بیراج 1309 سے 1304 قبل مسیح میں بنایا گیا۔ اسپین کے پروسپیرنا اور کورناویلا ڈیم پہلی صدی کی تعمیرات ہیں، اسی طرح جاپان اور ہندوستان میں بھی صدیون پرانے ڈیم آج تک نہ صرف موجود ہیں بلکہ کارآمد بھی ہیں۔
پاکستان میں نہری پانی کا سب سے بڑا آبپاشی نظام سکھر بیراج کو کہا جاتا ہے، 66 دروازوں والا یہ بیراج اپنی عمر کے 87 برس پورے کر چکا ہے، یعنی بیراج اپنی پلاٹینم جوبلی آج سے 12 برس پہلے منا چکا ہے، یہ بیراج پون صدی سے گذر کر اب ایک صدی کے سفر پر رواں دواں ہے۔