کراچی میں پانی کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟
پانی کو ترسنے والے کراچی کے باسیو کیا آپ کو معلوم ہے کہ جیمز اسٹارچن کون تھے؟
انہیں 1873 میں کراچی میونسپلٹی کے چیف انجینئر اور سیکریٹری کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، انہوں نے اپنی دانشمندانہ صلاحیتوں کے ساتھ کراچی کو اس وقت کے سب سے صاف ستھرے اور خوش انتظام شہروں میں سے ایک بنا دیا تھا۔
یہ ان کی ہی جدت کی طرف گامزن سوچ کا نتیجہ ہے کہ جس نے 140 سال قبل کراچی میں ہر ایک گھر کے لیے پانی کا کنیکشن ممکن ہوسکا، حالانکہ ان کے افسران بالا نے انہیں صرف چھاؤنی، اہم کولونیوں اور کشادہ سڑکوں کے لیے منصوبہ بندی اور شہر کے (غریب) رہائشوں کی پرواہ نہ کرنے کا کہا تھا۔
آج جب ہمارے شہر میں پانی کی شدید قلت ہے تو دورِ حاضر کے کسی جیمز اسٹارچن کی بہت زیادہ کمی محسوس ہوتی ہے یا پھر کراچی کو پانی کے اس بحران سے نکالنے کے لیے ان کے جیسی سوچ کی طلب محسوس کی جاتی ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ایسا کیا جاسکتا ہے۔
کراچی پاکستان کا ایک سب سے بڑا اور زیادہ آبادی والا شہر ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ ملک کا تجارتی مرکز بھی ہے، جی ڈی پی میں اس شہر کا حصہ 20 فیصد ہے، حکومت کو وصول ہونے والے ٹیکسوں کا ایک بڑا حصہ اسی شہر سے حاصل ہوتا ہے، یہ شہر کاروبار شروع کرنے اور ملازمتوں کا ایک سب سے بڑا مرکز ہے۔ تاہم شہر کے ارتقائی عمل کے مخلتف پہلوؤں، اس کی معیشت، آبادی کی بہتات، مختلف نسلی اور سماجی و سیاسی مسائل کے باعث یہ ان شہروں میں سے ایک بن گیا ہے جہاں کا انتظام سنبھالنا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ شہر کے اندر ایک ادارے کے ذریعے پانی کی فراہمی اور اس کا انتظام سنبھالنا بھی اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔