خوش قسمتی اور بد قسمتی سے بھرپور نواز شریف کی سیاسی زندگی

مالی وسائل سے بھرپور وہ کون سا شخص ہے جو کرپشن کے الزام کا سامنا کرنے تقریباً روز ہی عدالت کے سامنے پیش ہوتا ہے؟
وہ ہے میاں محمد نواز شریف، پاکستان کی واحد ایسی شخصیت جو 3 مرتبہ وزیرِاعظم اور 2 بار سب سے بڑے صوبے کے وزیرِاعلیٰ کے طور پر منتخب ہوئی۔
وہ پاکستان کے ایسے واحد وزیرِاعظم ہیں کہ جنہیں 1993ء میں صدر نے برطرف کیا تو سپریم کورٹ نے صدر کے اس فیصلے کو ایک طرف رکھ کر انہیں بحال کردیا۔ ملک میں ان سے زیادہ اور کوئی سیاستدان اتنا خوش قسمت نہیں رہا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں کوئی سیاستدان ان سے زیادہ بدقسمت بھی نہیں رہا ہے کیونکہ انہیں تینوں مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا، 2 بار نااہل قرار دیا گیا، کم و بیش ایک دہائی کے لیے ملک بدری پر مجبور کیا گیا اور متعدد قید کی سزائیں سنائی گئیں، جن میں سے ایک تو عمر قید کی سزا بھی ہے۔
گزشتہ 17 ماہ کے عرصے میں، سپریم کورٹ نے انہیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار دیا اور یوں وہ وزیرِاعظم بننے سے بھی روک دیے گئے۔ اس کے علاوہ احتساب عدالت نے انہیں لندن میں مہنگی جائیداد کی ملکیت رکھنے پر 10 سال قید بامشقت کی سزا کے ساتھ ساتھ بھاری جرمانہ بھی عائد کیا۔
2000ء کی دہائی میں سعودی عرب میں ان کے خاندان کی جانب سے قائم کی جانے والی اسٹیل مل سے متعلقہ ایک دوسرے مقدمے میں ان پر 7 سال جیل اور 2 کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ نواز شریف کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹی اور داماد پر بھی فرد جرم عائد کیا گیا اور سزائیں بھی سنائی گئیں۔
جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد ان کی جماعت پنجاب میں مسلسل 10 سالہ حکمرانی سے قائم ہونے والی گرفت کھو چکی ہے۔ انہیں اب بھی ایک تحقیقات کا سامنا ہے اور ممکن ہے کہ اس میں بھی وہ مجرم قرار پائیں اور انہیں ایک بار پھر سزا سنا دی جائے۔ ان کے بھائی اور 3 بار پنجاب کے وزیرِاعلیٰ رہنے والے شہباز شریف کو بھی کرپشن کے مختلف مقدمات کا سامنا ہے ٹھیک اسی طرح ان کے دیگر قریبی خاندان کے افراد اور ان کے وفاداروں کو بھی مقدمات کا سامنا ہے۔
یہ سب کیسے ہوا؟
یہ ایک طویل کہانی ہے اور نواز شریف کے کیریئر میں چند بڑے ہی دلچسپ موڑ شامل ہیں۔ ہمیں یہ پتہ لگانا ہوگا کہ آخر کیوں انہیں ان قوتوں نے تنہا چھوڑ دیا جنہوں نے ان کی تقریباً 2 دہائیوں تک سرپرستی کی تھی اور کس طرح عدلیہ کی نظر میں وہ اچھے راستے سے ناپسندیدہ راستے پر چلنے لگے؟
نواز شریف کے زوال میں 3 عناصر فیصلہ کن کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
- پہلا، تمام اختیارات سے لیس ایک حقیقی وزیرِاعظم بننے کی خواہش۔
- دوسرا، ان کے کردار میں شامل تند و تیزی کا عنصر جس نے انہیں رسک کا اندازہ لگائے بغیر سخت اقدامات اٹھانے کی طرف مائل کیا۔
- تیسرا، وہ اس بات کا احساس ہی نہیں کر پائے کہ کوئی بھی شخص ایک ہی وقت میں لوگوں کا منتخب نگران اور غلط طریقوں سے پیسے بنانے والا نہیں ہوسکتا۔
ان کے کیریئر میں ایک ستم ظریفانہ موڑ بھی آیا، کہنے کا مطلب یہ کہ انہون نے ایک بے ضرر اور معصوم سیاستدان کے طور پر عروج کو چھوا لیکن جب یہ نظر آیا کہ وہ ایک ایسے طاقتور سیاستدان بن چکے ہیں جنہیں کوئی ہرا نہیں سکتا تبھی وہ زوال پذیر ہوئے۔
نوجوان نواز شریف کے پاس جب مفت کے پیسوں کی کوئی کمی نہیں تھی تب انہوں نے ایئر مارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان کی پارٹی تحریک استقلال کے سائے تلے سیاست سے معاشقہ شروع کیا۔ ان کے پاس کوئی سفارش نہیں تھی ماسوائے ان پیسوں کے جو اطلاعات کے مطابق ان کے سیاسی کیریئر میں سرمایہ کاری کے لیے ان کے والد نے ایک طرف رکھے تھے اور سود مندانہ انداز میں خرچ کیے گئے۔
اگر یہ کہانی سچ ہے تو یہ سوچ دماغ میں آتی ہے کہ تاریخ انہیں کس نظر سے دیکھے گی۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر ہرالڈ میگزین کے جنوری 2019 کے شمارے میں شائع ہوا۔