’اصل میں یہ بات لوگوں میں مشہور ہے کہ شادی کی پہلی ہی رات سلمٰی نے شبیر کو کہہ دیا تھا کہ مجھے تم سے نفرت ہے اور یہ شادی میری مرضی کے خلاف ہوئی ہے۔‘
’اوہ اچھا تو پھر کیا ہوا؟‘
’کس کا کرمو کا؟‘
’نہیں بھئی شبیر کا؟‘
’شبیر زمیندار خون تھا بھلا یہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ اس کی بیوی کسی اور سے محبت کرے، سو وہ روز سلمٰی کو پیٹتا اور کہتا کہ مجھے بتاؤ تمہیں کس سے محبت ہے؟ لیکن سلمٰی عجیب عورت تھی اس نے 6 ماہ تک شبیر کو نہیں بتایا کہ اسے کس سے محبت ہے۔‘
’اچھا پھر؟‘
’پُل پر کام کرنے والے ایک صاحب کے پاس بہت قیمتی گھڑی تھی جو انہوں نے ولایت سے لی تھی۔ ایک دن کیا ہوا کہ وہ صبح اٹھے تو ان کی گھڑی غائب تھی۔ انہوں نے سارے مزدوروں کو بلایا۔ اگرچہ مزدور سارے ہی غریب تھے لیکن کرمو کی حالت سب سے زیادہ پتلی تھی اور ایک دن پہلے ہی اس نے صاب سے اپنے حالات کا رونا رو کر تنخواہ بڑھانے کی گزارش کی تھی، لہٰذا صاحب کو شک ہوگیا کہ چور یقیناً کرمو ہی ہے۔ انہوں نے کرمو سے کہا کے وہ گھڑی واپس کردے ورنہ وہ کوڑے مار مار کر گھڑی نکلوا لیں گے۔‘
’لیکن ہم تو شبیر اور سلمٰی کے بارے پوچھ رہے ہیں‘
’ارے بھئی اب چھوڑ بھی دو سلمٰی اور شبیر کو۔‘
’نہیں، ہمیں تو ان کے بارے میں ہی جاننا ہے۔‘
’ہوا کچھ یوں کہ 6 ماہ بعد سلمٰی نے ایک روز شبیر سے کہا کہ اسے شبیر کے دوست یعنی مجھ سے محبت ہے۔‘
’اوہ یعنی تم بھی اس کہانی کا حصہ ہو؟‘
’نہیں نہیں، میں تمہیں دوسرا قصہ سناتا ہوں کہ جب کرمو پر الزام لگا تو اس نے بہت قسمیں کھائیں اور کہا کہ وہ غریب ضرور ہے لیکن چور نہیں۔ لیکن تمہیں تو معلوم ہے کہ غریب آدمی کے لیے یہ ثابت کرنا کتنا مشکل ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے، سو کسی نے بھی کرمو کی بات کا یقین نہیں کیا اور صاب نے ایک لمبا کوڑا منگوالیا۔ اب وہ کرمو کو مارتے جاتے اور کہتے جاتے کہ کمبخت چور، بتا میری گھڑی کہاں ہے؟ ارد گرد کھڑے باقی مزدور بھی کرمو پر آوازیں کسے جارہے تھے کہ چوری کا انجام بُرا ہی ہوتا ہے۔ کوئی دسویں بار جب صاب نے کوڑا مارا تو کوڑا ان کے ہاتھ سے گر گیا جسے اٹھانے کے لے جب وہ جھکے تو گھڑی ان کی اپنی جیب سے نکل کر نیچے گرگئی۔ اب صاب کبھی کرمو کو اور کبھی گھڑی کو دیکھتے اور کرمو نے صاب کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ایک غریب کو ایک امیر کو دیکھنا چاہیے، لیکن یکدم اسے خیال آیا کہ کہیں نوکری ہی نہ چلی جائے، لہٰذا وہ اٹھا اور کہنے لگا کہ صاب مبارک ہو گھڑی مل گئی۔ رشید، فقیرو، گورو یہ دیکھو صاب کی گھڑی مل گئی۔‘
’اوہ ہو یہ تو بہت دُکھی کہانی ہے، لیکن وہ شبیر کا کیا ہوا؟‘
’جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میں اس کہانی کا حصہ ہوں اور سلمٰی کو مجھ سے محبت ہے، سو ایک روز میں گھر کے باہر ہی کھڑا تھا کہ شبیر آگیا۔
اس نے کہا ’میں تو تمہیں اپنا جگری دوست سمجھتا تھا، مجھے کیا معلوم تھا تم ایسے نکلو گے‘
’کیا ہوا دوست مجھے بات کچھ سمجھ نہیں‘ میں نے پوچھا۔
’اب اتنے بھی بھولے نہ بنو، مجھے سلمٰی نے سب کچھ بتادیا ہے۔‘
اور یہ کہہ کر اس نے مجھ پر گولی چلادی جو میری ٹانگ پر لگی، سو تب سے میں تم لوگوں کے ساتھ اس وارڈ میں علاج کی غرض سے داخل ہوں۔‘