’گلاب‘ جس کی خوشبو گمنامی کے سفر میں کہیں کھو گئی
’اپنا نام قبر کے کتبوں پر لکھوانے کے بجائے لوگوں کے دلوں پر رقم کریں۔ آپ کی یادیں لوگوں کے ذہنوں اور ان داستانوں میں زندہ رہنی چاہییں جو آپ کے بارے میں لوگ ایک دوسرے کو سنائیں‘: شینن الڈر
1964ء میں اپنے آغاز سے آج تک، پاکستان ٹیلی ویژن نے بہت سے ایسے باصلاحیت فنکاروں کو جنم دیا جن کے بے مثال فنی مظاہروں نے ہمارے دلوں میں ان کے نام نقش کردیے۔
پاکستان کی تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب رات 8 تا 9 شہر سنسان ہوجایا کرتے، سڑکوں اور گلیوں میں ہُو کا عالم ہوتا کیونکہ یہ وقت پی ٹی وی اردو ڈراموں کا ہوتا۔ یہ دور پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کا سنہرا دور تھا، جس میں بننے والے تقریباً تمام ہی ڈراموں کو اگر پاکستانی فنون لطیفہ کا اثاثہ کہا جائے تو یہ ہرگز غلط نہیں ہوگا۔
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے باصلاحیت فنکاروں میں سے ایک نام گلاب چانڈیو کا تھا، جو کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں۔ 80ء کی دہائی میں اپنے فنی کیریئر کا آغاز کرنے والے گلاب چانڈیو نے متعدد اردو اور سندھی ڈراموں میں اپنی ورسٹائل اداکاری کے جوہر دکھائے۔ بطور مرکزی کردار ان کے فنی سفر کا باقاعدہ آغاز سندھی ڈرامہ ’بیو شخصُ سے ہوا جس میں ان کے مقابل سکینہ سموں نے کام کیا۔ گلاب چانڈیو نے ناصرف ٹیلی ویژن بلکہ تھیٹر اور فیچر فلمز میں بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔