جب اخبارات کا ’ضمیمہ‘ بھی آتا تھا
یہ سہ پہر کا وقت ہے۔ ایسی ٹھہری ہوئی سہہ پہر کہ جس میں کھانا کھانے کے بعد گویا گھڑیال بھی سستانے کو رک سا جاتا۔
گلیوں میں آمد و رفت کم، نکڑ کے دکان دار بھی سستانے کو اپنی دکانیں ڈھانپ کر چلے گئے ہیں، ایسے میں ایک سائیکل یا اسکوٹر پر اخبار فروش کی ’ضمیمہ! ضمیمہ!‘ کی پکار اس شانت سہہ پہر کا سارا سکون درہم برہم کرکے رکھ دیتی ہے۔ ایک ہاہاکار سی مچ جاتی ہے۔ جس کان تک یہ آواز جاتی ہے وہ خبر لینے کو دوڑ پڑتا ہے کہ خدا خیر کرے کیا ہوا۔
اکثر اخبار فروش باآواز بلند ’سرخی‘ کا مفہوم عوامی انداز میں بھی سناتا جاتا، جیسے برطرفی یا استعفے کی جگہ وہ فلاں کی ’چھٹی‘ کہتا، دھماکے کی جگہ وہ ’اڑادیا‘ بولتا اور سزاؤں کے لیے ’اندر‘ اور ’لٹکا دیا‘ وغیرہ جیسے لفظ برتتا۔
یہ سرخی کبھی تو پوری سمجھ میں آجاتی اور کبھی اس کا مفہوم ادھورا رہ جاتا اور پھر ادھوری خبر سے تو تجسس کئی گنا بڑھ جاتا، جیسے کسی مشہور شخصیت کا نام سن لیا اور آگے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہوا، تو سوچ سکتے ہیں کہ ادھورا سامع بنے اس قاری پر کیا گزرتی ہوگی!