نقطہ نظر

ہاکی کے میدان میں بیلجیم کی ٹیم زیرو سے ہیرو کیسے بنی؟

بیلجیم کی اس کارکردگی کو دیکھ کر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر بیلجیم جیسی ٹیم اٹھ سکتی ہے تو پھر پاکستانی ٹیم کیوں نہیں؟

گزشتہ ماہ بھو بھنشور میں منعقدہ ہاکی ورلڈ کپ کے اختتام پر ہاکی شائقین کو اتنی حیرت 16 ٹیموں میں سے پاکستان کی 12ویں پوزیشن دیکھ کر نہیں ہوئی جتنی حیرت بیلجیم کے ٹائٹل جیتنے پر ہوئی۔

بیلجیم ٹیم کو انڈیا (میزبان)، کینیڈا اور جنوبی افریقا پر مشتمل پول سی میں شامل کیا گیا تھا اور یہ ٹیم درجہ بہ درجہ پُراعتماد ہوکر کھیلتی گئی اور جیت کی طرف گامزن رہی۔ پہلے راؤنڈ میں میزبان انڈیا سے مقابلہ 2-2 کے ساتھ برابر رہا، کینیڈا کو 1-2 سے ہرایا جبکہ جنوبی افریقا کو 1-5 سے ہرا کر دوسرے مرحلے میں اپنی جگہ بنائی۔ دوسرے مرحلے میں بیلجیم پاکستان کو 0-5 سے شکست دے کر کوارٹر فائنل میں داخل ہوگئی۔ کوارٹر فائنل میں جرمنی کو کٹھن مقابلے کے بعد 1-2 سے شکست دی اور سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرلی، جہاں اس نے انگلینڈ کو 0-6 سے بدترین شکست دی۔

فائنل کا معرکہ نیدرلینڈ کے خلاف سجا، جس میں آخری سیٹی بجنے تک اسکور 0-0 کے ساتھ برابر رہا، جس کے بعد میچ کا فیصلہ پینالٹی شوٹ آؤٹ پر ہوا، جس میں بیلجیم نے 2-3 سے فتح حاصل کرکے پہلی مرتبہ عالمی خطاب اپنے نام کیا۔ پھر جس انداز میں بیلجیم نے کھیل پیش کیا اسے دیکھ کر یہ ہرگز نہیں لگتا ہے کہ یہ ان کی آخری ورلڈ کپ ٹرافی ہوگی۔

بیلجیم کی کارکردگی کے حوالے سے پاکستان کے مایہ ناز سابق کھلاڑی اولمپیئن شہناز شیخ کہتے ہیں کہ جو ہاکی کی بنیادی خصوصیات بیلجیم کی ٹیم میں نظر آرہی ہیں وہی 15 برس قبل پاکستانی ٹیم میں بھی موجود تھیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ، ’بیلجیم آج جس مقام پر ہے وہاں تک پہنچنے کے لیے انہوں نے اپنے انفرااسٹریکچر پر پیسہ لگایا۔ اس فتحیاب ٹیم کے پیچھے ایک مستحکم ہاکی نیٹ ورک موجود ہے۔‘

پاکستان میں نرسریز اور ہاکی اکیڈمکس کے ساتھ کیا کچھ بیتی اس پر شہناز شیخ کا کہنا ہے کہ یہ سب وژن کی کمی کا شکار ہوئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ، ‘پاکستان میں قومی ہاکی کا انتظام سنبھالنے والے تمام ہی افراد سیاسی بنیادوں پر تعینات ہوتے ہیں، پھر چاہے وہ ہاکی اولمپیئنز ہی کیوں نہ ہوں۔ دیکھیے ایک کلاس میں مختلف طرح کے طلبا موجود ہوتے ہیں۔ جو ہونہار اور بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنے والے ہوتے ہیں وہ ہمیشہ ابتدائی بینچوں پر نظر آئیں گے، اسی طرح کمزور اور گریس نمبر حاصل کرنے والے پچھلی بینچوں پر ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ تمام طلبا ایک ہی کلاس میں بیٹھتے ہیں مگر ہر ایک کی کارکردگی دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ بالکل ٹھیک اسی طرح ہمارے پاس بھی ایسے اولمپئنز موجود ہیں جن کی ہاکی سے متعلق معلومات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔‘

شہناز کہتے ہیں کہ 2014ء میں جب وہ پاکستان ہاکی ٹیم کی کوچنگ کر رہے تھے اس وقت پاکستان نے اسی میدان میں انڈیا اور ہالینڈ کو شکست دی تھی جس میدان میں حال ہی میں بیلجیم نے اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کو شاید یہ تو علم ہو کہ ہاکی کس طرح کھیلی جاتی ہے لیکن بطورِ کوچ آپ کو یہ معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ دوسروں کو بہترین انداز میں ہاکی کھیلنے کی جانب کس طرح مائل کرنا ہے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ، ’دوسری طرف، حالیہ ورلڈ کپ میں پاکستان کے کھیل کا فارمیٹ ایسا تھا جیسا میگا اسٹار کے لیے ہوتا ہے۔ یہ کہنے سے میری مراد یہ ہے کہ یہ فارمیٹ ’فلائنگ ہارس‘ سمیع اللہ جیسے تجربہ کار کھلاڑی کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن ان کھلاڑیوں کے لیے نہیں جو حال ہی میں قومی ٹیم کا حصہ بنے ہیں۔ جب اسی تکنیک کے ساتھ موجودہ ٹیم کھیلی تو اس کے نتائج بھی بھگتنے پڑے۔ چنانچہ، آپ اٹیک کرنے آگے بڑھتے ہیں تو آخر میں خود کو ہی کاؤنٹر اٹیک کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ،’ موجودہ پاکستانی ٹیم میں ایسے ایک یا دو کھلاڑیوں کی ضرورت ہے جو گیند آگے بڑھانے والے کھلاڑیوں کو گیند سے محروم ہوجانے کی صورت میں انہیں ڈھال یا کور فراہم کرسکیں۔ مختلف میچوں میں کئی مرتبہ گروپ ٹیکلنگ کے دوران کور نہ ہونے کے باعث ان سے گیند چھین لی گئی۔ جب ایک کھلاڑی مدد کے بغیر اٹیکس کرتا ہے تو گیند پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے دفاع بھی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔‘

ورلڈ کپ میں 36 میچ کھیلے گئے اور 157 گول داغے گئے، یعنی فی میچ گول کی اوسط 4.36 رہی۔ مطلب یہ کہ اس کھیل میں تبدیلی اور پہلے سے زیادہ تیزی آ رہی ہے۔

بیلجیم ہاکی ٹیم کے کپتان تھامس بریلس ورلڈ کپ ٹرافی وصول کر رہے ہیں

پاکستانی ہاکی ٹیم کے سابق کھلاڑی اور ایف آئی ایچ سے سند یافتہ کوچ عدنان ذاکر کہتے ہیں کہ بیلجیم ٹیم کا سفر بہت ہی دلچسپ رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ، ’بیلجیم نے اپنے ہی ملک کے شہر انتورپ میں منعقدہ 1920ء کے سمر اولمپک میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔ اس کے بعد سے ان کی کارکردگی میں بتدریج پستی آتی چلی گئی۔ اگلے اولمپک کھیلوں میں ان کی چوتھی پوزیشن آئی اور پھر یہ پوزیشن 7ویں نمبر تک گرگئی، جس کے بعد نوبت یہاں تک آگئی کہ 1976ء میں ان کی ٹیم ہاکی کے منظرنامے سے ہی غائب ہوگئی۔ لیکن 2000ء میں ہونے والے سڈنی اولمپکس کے بعد انہوں نے اپنے ڈومیسٹک ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں بھاری سرمایہ کاری کی اور اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے غیر ملکی کوچز کو مقرر کیا۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ، ’ان کوچز میں سے ایک سابق آسٹریلین مڈ فیلڈر ایڈم ڈیوڈ کامنز بھی شامل تھے، جنہیں 2007ء میں ہیڈ کوچ کا عہدہ دیا گیا۔‘

بیلجیم کے کھیل میں آج بھی آسٹریلیا کی اٹیک کرنے کی حکمت عملی جھلکتی ہے۔ جب کامنز نے بیلجیم کی ٹیم کو الوداع کہا تو آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے کولن بیچ نے کوچنگ کی ذمہ داری سنبھالی جو کامنز سے بھی زیادہ تجربہ کار کھلاڑی تھے۔ بیچ اگرچہ کامنز سے عمر میں بڑے کیوں نہ ہوں مگر ان کا علم بالکل تازہ دم تھا۔ ایسا اس لیے تھا کہ انہوں نے 1999ء میں ایف آئی ایچ سے زبردست کوچنگ کارکردگی کی سند حاصل کرکے اگلے 8 سال تک اپنی ہی آسٹریلین ہاکی ٹیم کے لیے بطور اسسٹنٹ کوچ ذمہ داریاں انجام دیں۔ یوں بیلجیم کے ہیڈ کوچ بننے سے پہلے ان کی صلاحیتوں میں معنی خیز اضافہ ہوچکا تھا۔

ذاکر کہتے ہیں کہ، ’البتہ یہ تبدیلی اتنی زیادہ تیز رفتار نہیں رہی کیونکہ بیلجیم ٹیم نے یورپین چیمپئن شپ، ورلڈ ہاکی لیگ اور 2016ء کے اولمپک فائنل میں شکست کھائی تھی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک ٹیم کے کھلاڑی اس طرح کے دباؤ کا سامنا کرنے کے عادی نہیں ہوئے تھے جس کا سامنا بڑے فائنل کے مقابلوں کے دوران ہوتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ ورلڈ کپ کے دوران اٹیکنگ اور دفاعی کھلاڑیوں کی جانب سے پیشہ ورانہ اور نظم و ضبط سے بھرپور کارکردگی کے ساتھ ٹیم کافی پُراعتماد نظر آئی۔‘

بیلجیم کی اس کارکردگی کو دیکھ کر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اگر بیلجیم جیسی ٹیم اٹھ سکتی ہے تو پھر پاکستانی ٹیم ہاکی میں اپنا کھویا ہوا مقام کیوں حاصل نہیں کرسکتی؟ وہ اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’بیچ کوئی عام کوچ نہیں تھا۔ انہوں نے بیلجیم کی بہتر کوچنگ کرنے کی خاطر اپنی کوچنگ پر سخت محنت کی۔ بیلجیم آنے سے قبل 8 برسوں تک وہ آسٹریلین ہاکی ٹیم کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کوچ منسلک رہے۔ جبکہ ہم یہاں (پاکستان میں) ایک ایسے شخص کو قومی ٹیم کا کوچ بنا دیتے ہیں جس نے شاید ضلعی سطح کی ٹیم کی کوچنگ بھی نہیں کی ہوتی۔ ہمیں پروفیشنلزم کے حوالے سے ابھی مزید کئی سبق سیکھنے باقی ہیں۔‘


ٰیہ مضمون ڈان اخبار کے ایئوس میگزین میں 30 دسمبر 2018ء کو شائع ہوا۔

نگینہ امتیاز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔