پاکستان کرکٹ ٹیم اپنے سب سے مشکل دورے پر افریقہ پہنچ چکی ہے۔ ویسے تو ہم آسٹریلیا میں بھی تقریباً 20 سال سے کوئی ٹیسٹ میچ نہیں جیت سکے تاہم جتنا مشکل ہمارے کھلاڑیوں کے لیے دورہ افریقہ ہوتا ہے دورہ آسٹریلیا اس کے سامنے کچھ نہیں۔
اگر ماضی میں جائیں تو افریقہ ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کرنے والی تیسری ٹیم تھی تاہم ان کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، یعنی نسل پرستی کا۔ جنوبی افریقہ 1970ء تک ٹیسٹ کرکٹ کھیلتی رہی لیکن سوائے نیوزی لینڈ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے وہ کسی دوسرے ملک کے خلاف کرکٹ نہیں کھیلتے تھے، حتی کہ اس نسل پرستانہ روش کی وجہ سے ان ٹیموں نے بھی افریقہ سے منہ موڑ لیا۔
اپریل 1992ء میں افریقہ کی دوبارہ ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی ہوئی اور پاکستان کی ٹیم پہلی مرتبہ جنوری 1995ء میں افریقہ کے خلاف میدان میں اتری تھی۔ یہ ایک میچ پر مشتمل سیریز تھی جو یکطرفہ مقابلے کے بعد افریقہ نے باآسانی جیت لی۔ یہاں سے جنوبی افریقہ کی برتری کا وہ دور شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ پاکستان کی ہار جیت کا اتنا بُرا تناسب کسی ملک کے خلاف نہیں جتنا افریقہ کے خلاف ہے۔ افریقہ کو تو ہم اپنے ہوم گراؤنڈز پر بھی صرف 2 میچ میں ہی چت کرسکے ہیں اور دونوں ملکوں کے خلاف اب تک کھیلی گئیں 10 سیریز میں ہم صرف ایک بار سیریز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، افریقہ 6 مرتبہ سرخرو ہوا اور 3 سیریز ڈرا پر ختم ہوئی ہیں۔
ہم آسٹریلیا کو تو ایک سے زائد مرتبہ کلین سوئپ کرچکے ہیں مگر افریقہ کے خلاف آج تک صرف 4 ٹیسٹ میچز ہی جیتنے میں کامیاب رہے ہیں، اور مقابلے میں ہمیں 12 بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اگر انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کو ایک طرف رکھا جائے تو ہر ملک کے خلاف ہمارا پلڑا بھاری ہے۔ اب تک پاکستان 5 بار افریقہ کا دورہ کرچکا ہے۔ وہاں کب کب کیا کیا ہوا، آئیے اس کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
جنوری 1995
واحد ٹیسٹ
یہ جنوبی افریقہ میں پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔ اس دورے میں دونوں ٹیموں کے مابین صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔ پاکستان کے کپتان سلیم ملک تھے جبکہ سعید انور، عامر سہیل اور انضمام جیسے مستند بلے باز اس ٹیم میں شامل تھے۔ باؤلنگ کے لئے وسیم اکرم اور عاقب جاوید کی خدمات بھی موجود تھیں۔
افریقہ کی ٹیم کی کمان ہنسی کرونیے کے ہاتھ تھی۔ اگر ہنسی کرونیے میچ فکسر نا ہوتے تو کھیل کی تاریخ کے بڑے کپتانوں میں سے ایک گنے جاتے۔ گیری کرسٹن، جونٹی رہوڈز اور ڈیرل کلینن جیسے بلے باز افریقی ٹیم میں شامل تھے۔ اگر باؤلنگ کی بات کی جائے تو ایلن ڈونلڈ اور فینی ڈی ویلئیرز اس باؤلنگ اٹیک کی قیادت کر رہے تھے۔
افریقہ نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 460 رنز بنا ڈالے۔ اس اننگ میں پاکستانی باؤلرز نے بھی خوب فیاضی کا مظاہرہ کیا اور 64 ایکسٹراز دے ڈالے۔ یہ آج بھی پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ فاضل رنز کا ایک ریکارڈ ہے۔ ان 64 رنز میں 36 نو بالز کے رنز بھی شامل تھے، اور یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔
جواب میں سوائے کپتان سلیم ملک کے کوئی بلے باز ڈی ویلئیرز کے سامنے نا ٹھہر سکا۔ سلیم ملک نے 99 رنز بنائے اور آخر میں 41 رنز بناکر وسیم اکرم نے ان کا ساتھ دیا اور قومی ٹیم کی کچھ لاج رکھی۔ اگرچہ 230 رنز بنانے والی قومی ٹیم کو فالو آن کا سامنا ہوا تھا مگر اس کے باوجود افریقہ نے دوبارہ بلے بازی کا فیصلہ کیا اور پاکستان کے لئے 490 رنز کا ہدف کھڑا کردیا۔ دوسری اننگ میں صورتحال مزید سنگین ہوگئی اور پوری ٹیم محض 165 رنز بناکر پویلین لوٹ گئی۔ یوں قومی ٹیم کو 325 رنز سے شکست ہوئی۔
فروری-مارچ 1998
اس بار ٹیسٹ سیریز 3 میچوں پر مشتمل تھی۔ عامر سہیل کی قیادت میں ایک مضبوط دستہ جنوبی افریقہ پہنچا تھا۔ باؤلنگ اٹیک کو بلاشبہ ورلڈ کلاس کہا جاسکتا ہے جس میں وقار یونس، وسیم اکرم، شعیب اختر، ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد جیسے باؤلرز اور اظہر کی صورت زبردست آل راونڈر قومی ٹیم کو دستیاب تھے۔ یاد رہے کہ یہ اظہر محمود کے عروج کا زمانہ تھا۔ بیٹنگ میں عامر سہیل، سعید انور اعجاز احمد اور انضمام الحق موجود تھے جبکہ محمد یوسف کی یہ پہلی ٹیسٹ سیریز تھی۔
دوسری طرف افریقہ کی ٹیم بھی کم نہیں تھی۔ گیری کرسٹن اور ڈیرل کلینن کے ساتھ جیک کیلس اور ہرشل گبز جیسے نوجوان بھی بیٹنگ لائن کا سہارا بن چکے تھے۔ مارک باؤچر وکٹ کیپنگ کے ساتھ ساتھ عمدہ بلے بازی کے جوہر بھی دکھا رہے تھے۔ شان پولاک، ایلن ڈونلڈ اور فینی ڈی ویلئیرز کے ساتھ ساتھ لانس کلوزنر جیسے آل راونڈر ایک تباہ کن باؤلنگ اٹیک بناچکے تھے۔
پہلا ٹیسٹ
پہلا میچ جوہانسبرگ میں تھا۔ یہ میچ بارش کی نذر ہوگیا تاہم اظہر محمود اور پیٹ سمکوکس کی شاندار سنچریوں کی بدولت پہلے 3 دن خاصے مقابلے کی فضا رہی۔ سمکوکس کی یہ سنچری 10ویں نمبر پر بلے بازی کرنے والے کسی بھی بلے باز کی صرف تیسری سنچری تھی اور ایسا 96 سال بعد ہوا تھا۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ آج تک یہ کارنامہ صرف 4 بلے باز انجام دے سکے ہیں۔
دوسرا ٹیسٹ
دوسرا میچ پاکستان کے لئے یادگار رہا۔ اسی میچ میں محمد یوسف کا ٹیسٹ ڈیبیو بھی ہوا لیکن یہ ہرگز یادگار ڈیبیو نہیں تھا۔ اظہر محمود نے افریقہ کے خلاف اپنی شاندار پرفارمنس کا سلسلہ جاری رکھا اور 132 رنز کی قیمتی اننگز کھیلی جس کی وجہ سے قومی ٹیم 259 تک پہنچ سکی۔ یہ اظہر محمود کی تیسری اور آخری ٹیسٹ سنچری تھی انہوں نے ٹیسٹ میں اپنی تینوں سینچریاں اور واحد نصف سنچری بھی جنوبی افریقہ کے خلاف ہی بنائی ہے۔
جب افریقی ٹیم بلے بازی کرنے آئی تو اپنا صرف تیسرا ٹیسٹ کھیلنے والے شعیب اختر قہر بن کر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے 12 اوورز میں 43 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایک مرتبہ پھر افریقی ٹیل اینڈرز ہمارے لئے مسئلہ بن گئے اور ساتویں نمبر پر آنے والے شان پولاک نے ناقابلِ شکست 70 رنز کی زبردست اننگ کھیلی۔