اپنی ریس کا انتخاب دانائی سے کریں
اُن تھکے ٹوٹے وجودوں کو سلام جو منزل کی تلاش میں بھاگتے پھر رہے ہیں۔ اُن تھکی ہوئی روحوں کو سلام جو اس خاکی قفس سے نجات کے لیے مچلتی ہیں۔ سلام ان جسموں پر نیند جن کی تھکان اُتار نہیں پاتی کہ روحیں ہی جب تھک چکی ہوں تو نیندیں صرف وقت بِتانے کا ذریعہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ ان سے کوئی آرام کوئی راحت میسر نہیں آتی۔
وہ میرے کندھے مضبوطی سے پکڑے، مجھے جھنجوڑ کر کہنے لگا، ’تمہیں یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے چندہ۔ تم خود کو غلط جگہ پر ضائع کر رہے ہو۔ تمہاری یہ ریس ہی نہیں ہے جس میں تم بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوئے جا رہے ہو۔ اس ریس میں تمام عمر دوڑتے رہو تو بھی منزل پر نہیں پہنچ پاؤ گے اور اپنی تمام توانائیاں ضائع کر ڈالو گے۔‘
’کیا مطلب؟‘ میرے وجود میں سالوں سے جمی گرد پر کسی نے ایک دم پھونک دیا تھا۔ ہر طرف گرد اُڑ گئی۔
میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگا، ’دنیا ایک دوڑ ہے پیارے اور یہاں ہر فرد کسی نہ کسی ریس کا حصہ ہے۔ زندگی میں ہر سمے، ہر سمت کوئی نہ کوئی ریس چل رہی ہوتی ہے۔ اس ریس کا آغاز تب سے ہوتا ہے جب ہم پیدا ہوتے ہیں اور تب تک جاری رہتا ہے جب تک ہم قبر میں نہیں اُتر جاتے۔