نقطہ نظر

پھر سے ویانا جانے کو دل چاہتا ہے

ویانا کی تاریخی عمارتیں، شہر کےدل میں پھول بھرے باغ ذہن پر ایسی دلکش تصویر بناتے ہیں کہ پھر سے ویانا جانے کو دل چاہتا ہے

میں گاڑی ڈرائیو کرکے پراگ سے آسٹریا کے شہر ویانا پہنچا تھا، اس شہر کی سیر میں میری رہنمائی کی ذمہ داری میرے پاکستانی سٹی فیلو رابش منظور پر تھی، یہ صاحب بسلسلہ روزگار یہاں مقیم ہیں۔

طے یہ ہوا کہ گاڑی اپنے ہوٹل کی پارکنگ میں کھڑی کی جائے اور بذریعہ پبلک ٹرانسپورٹ شہر کا سیر سپاٹا کیا جائے، اور یہ اس دن کے بہترین فیصلوں میں سے ایک تھا کیونکہ اس طرح میں ویانا کی شاندار پبلک ٹرانسپورٹ کا قریب سے مشاہدہ کرپایا۔ ویسی ہی بسیں، ٹرامیں اور میٹرو رواں دواں نظر آئیں جیسی پورے یورپ میں چلتی ہیں، لیکن پلیٹ فارم اتنے خوبصورت اور صاف ستھرے کہ اسکینڈے نیویا سے بھی بہتر کا گماں ہو رہا تھا۔

یہاں پر ڈے پاس 8 یورو کا تھا، جس پر 24 گھنٹے پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت دستیاب تھی۔ ہم ایک بس پر سوار ہوکر انڈر گراؤنڈ ٹرین کے اسٹاپ پہنچے یہاں پر ایک دلکش عمارت نے ہماری توجہ حاصل کرلی۔ گوگل سے رہنمائی لی تو پتہ چلا کہ یہ بیکار اشیاء سے انرجی پیدا کرنے کا یونٹ ہے۔ اس عمارت کے آرکیٹیکچر کو ماحول دوست بنانے کی خاص سعی کی گئی تھی اور دیکھنے میں تو یہ ایک طلسمی سی دنیا کا کردار لگ رہی تھی۔

ہماری پہلی منزل ویانا کا مشہور شاہی محل تھا اور ہم ارادے کے مطابق اس طرف نکل بھی کھڑے ہوئے، لیکن ایک، دو اسٹاپ کے بعد ہی ارادہ بنا کہ ایک پاکستانی ریسٹورینٹ پر دیسی کھانا کھایا جائے اور اس کے بعد شہر کی سیر کی جائے۔ ہمارا دیسی کھانا بھی پہلی محبت کی طرح ساتھ ساتھ چلتا ہے جسے آدمی زیادہ دیر کو بھلا نہیں سکتا۔

حالانکہ ایک دن پہلے ہی پراگ کے ایک انڈین ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا تھا لیکن یہاں ایک دن کا وقفہ بھی خاصا طویل لگ رہا تھا۔ پردیس کی چکن کڑاہی کا رنگ روپ بھی ان ملکوں میں آکر بدل سا جاتا ہے، شملہ مرچ اور پیاز کے بڑے بڑے ٹکڑے جیسے پاکستان کے چینی ریسٹورینٹس میں پاک چین دوستی کی کہانی کہتی ہوئی کوئی اجنبی سی ڈش معلوم ہو رہی ہوتی ہے، لیکن ان میں دیسی مصالحے، پیاز ٹماٹر کا تڑکا، ادرک ہری مرچ کا ذائقہ، دیسی زیرہ کلونجی کی مہک اس تصویر میں ایسے رنگ بھرتی ہے کہ بس پاکستان کے کھانوں کی یاد آ ہی جاتی ہے۔

خوب سیر ہوکر کھانا کھایا گیا، دیسی چائے پی گئی اور بھلا ہو ریسٹورنٹ کے مالک کا جنہوں نے مہمان سمجھتے ہوئے چائے کے ساتھ کمپلیمنٹری گلاب جامن بھی بھیج دیے۔

اپنے شہر سے ڈھائی ہزار میل دُور محبت بھرے گلاب جامن کا اب بھی سوچوں تو یادوں میں میٹھا رس گھل جاتا ہے۔ یہاں سے ہم بذریعہ ٹرین شاہی محل کی طرف چلے آئے، شون برن نامی یہ قلعہ ویانا میں اول نمبر کی سیاحتی جگہ ہے۔

درجنوں سیاح اسی منزل کی طرف گامزن تھے اور داخلی دروازے تک آئے تو سیکڑوں سیاح اپنے سفر کی یادیں محفوظ کر رہے تھے۔ محل کے سیکڑوں کمروں میں سے چند کمرے عوامی نمائش گاہ کے طور پر بھی رکھے گئے ہیں، لیکن ہم جیسے دو ایک دن کے سیاح اسے باہر سے ہی دیکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

محل ایک وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے، جس کا بڑا حصہ باغ اور پارک کی صورت میں ہے۔ سامنے کا پورا حصہ اب پختہ کردیا گیا ہے جبکہ پچھلے حصے کی لینڈ اسکیپ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ موسمی پھولوں کو ترتیب سے لگایا گیا ہے۔

شاہی محل کے بعد ہمارا رخ شہر کے مرکز کی طرف تھا، حالانکہ یہ کام پہلے بھی کرسکتے تھے، لیکن ہمارے دوست اویس ملک نے کہا تھا کہ

ہم رسن بستہ غلاموں کو خبر کچھ بھی نہیں

چلتے جاتے ہیں جدھر کو راہنما جاتے ہیں

بس جس راہ پر چلنے کو رابش نے کہا ہم وہیں چل دیے، ایسے شہروں میں کسی رہنما کے ہونے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کم وقت میں زیادہ جگہیں گھوم سکتے ہیں، جگہوں کو ڈھونڈنے اور راستے پوچھنے کی مصروفیت سے جان چھوٹ جاتی ہے۔

اب ہماری اگلی منزل اسٹیفن گرجا گھر تھا جو اسٹیفن پیلس نامی میٹرو اسٹاپ پر ہی واقع ہے۔ 10ویں صدی کے اس گرجا گھر نے بہت زمانوں کو گزرتے دیکھا اور جنگوں کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے۔ اس گرجا گھر کی خوبصورت عمارت اس گنجان جگہ پر اپنی ایک الگ ہی شان و شوکت رکھتی ہے۔ بہت سے شہروں کے گرجا گھروں کی طرح اس میں بھی داخلہ مفت تھا، لہٰذا اندر جانے والوں کا ایک ہجوم تھا۔ ہم نے بھی اندر جانے کی ٹھانی اور یہ بات بارہا لکھ چکا ہوں کہ ہر مذہب کے ماننے والے اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر دل و جان سے ہی کرتے ہیں۔

ان کی اینٹوں کی ترتیب میں فنکاروں کا اوج کمال اور پوری مستعدی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسی گرجا گھر سے واکنگ اسٹریٹ طرز کی گلی میں چلتے ہوئے ہم اس منزل کی طرف چلے آئے جسے میوزیم اسکوائر کہا جاتا ہے۔ لیکن شہر کے میوزیم دیکھنے سے پہلے میری خواہش تھی کہ ہم ٹاؤن ہال پر حاضری دے کر اپنے آنے پر مہر تصدیق ثبت کرلیں۔

رابش کی رہنمائی تھی کہ آپ کو پراٹر پارک دکھایا جائے، حالانکہ مجھے اس پارک کو دیکھنے کی اتنی تڑپ نہ تھی لیکن پھر بھی ہم چلے آئے۔ یہ ایک امیوزمنٹ پارک تھا، دُور سے ہی اس طرف جانے والے لوگوں کا ایج گروپ دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ زیادہ تر فیمیلز اور بچوں کے دیکھنے کی جگہ ہے۔

پارک کے مختلف حصے مختلف تھیمز کے حساب سے سجائے گئے تھے۔ ابھی ہم کچھ ہی دُور چلے ہوں گے کہ ہلکی ہلکی بارش نے ہمارا استقبال کیا، لیکن ہم زیادہ پریشان یوں نہیں ہوئے کہ یورپ کی ان بارشوں کے اب تو ہم عادی ہوچکے ہیں۔

عام طور پر ہلکی ہلکی پھوار تو بس کپڑوں پر نمی کا اثر چھوڑ جاتی ہے، لیکن اس دن ایسا ہوا کہ بارش نے پاکستان کی موسلادھار بارش کی یاد تازہ کردی، اتنی تیز برسی کہ ہم بھی ایک جگہ پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ آدھا گھنٹہ تیز بارش ہوتی رہی اور جونہی یہ تھمی ہم نے واپس سٹی سنٹر کی راہ لی۔

اب ہمارا پہلا ٹھکانا ٹاؤن ہال تھا۔ آج ٹاؤن ہال کے باہر کسی فلمی فیسٹول کا انعقاد تھا، اس لیے وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ یہاں کھانے کے مختلف اسٹالز لگائے گئے تھے اور عارضی کیفوں نے ایک جہاں آباد کر رکھا تھا۔

اس ٹاؤن ہال کو دن کے کچھ مخصوص اوقات میں اندر سے بھی دیکھا جاسکتا ہے لیکن اب شام ہوچکی تھی، لہٰذا ہم نے اسے باہر سے ہی دیکھنے کا فیصلہ کیا۔

ٹاؤن ہال کے سامنے چلتے ہوئے ہم میوزیم اسکوائر کی جانب چل دیے اور یہاں پر وہ سرپرائز ملا کہ سفر کا مزہ دوبالا ہوگیا۔ سامنے موجود ایک پبلک پارک میں داخل ہوتے وقت مجھے یہ احساس تک نہیں تھا کہ میں ویانا کہ روز گارڈن میں داخل ہو رہا ہوں، بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں گلاب کے پھولوں نے میرے سفر کی ساری تھکان دور کردی۔

پھولوں سے محبت کرنے والے محبت کرنا سیکھ ہی جاتے ہیں، ہماری محبت کی کہانیوں میں بھی اکثر پھول پائے جاتے ہیں، اسٹینڈر روز کی سینکڑوں اقسام بہت ہی نفاست سے کیاریوں میں لگائی گئی تھیں، میرے لیے یہ جگہ عالمی مقابلہ حسن طرز کی کسی چیز سے کم نہ تھی۔

میرے ہمسفر ان پھولوں کے درمیان میرا بچوں جیسا جوش و خروش دیکھ حیران بھی تھے، لیکن سچ کہیے تو اگر کوئی پوچھے کہ ویانا کی کون سی ایک چیز ہے جس کے لیے میں ویانا کا پھر سے سفر کرسکتا ہوں تو میرے ذہن میں صرف پھولوں کے اس باغ کا تصور ہوگا۔

ہمارے ہاں بھی روز گارڈن کی اصطلاح پائی جاتی ہے، جب ہم ملتان میں پڑھا کرتے تھے تو نشتر میڈیکل کالج کے ساتھ ایک روز گارڈن ہوا کرتا تھا، جہاں ہم کبھی کبھار واک کے لیے جایا کرتے تھے اور ایسا ہی ایک دوسرا روز گارڈن باغِ جناح لاہور میں واقع ہے۔ تاہم یہاں کے روز گارڈن کی کلیکشن حقیقتاً دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جتنے بھی لمحے اس باغ میں گزرے اس سفر کے حسین لمحے تھے۔ پورے سفر میں اگر کہیں شوق سے اپنی تصویر بنوائی تو وہ یہی خوبصورت پھولوں کی گزر گاہ تھی۔

اسی روز گارڈن کی خوبصورتیوں سے دل بہلاتے ہم میوزیم اسکوائر کے ایک حصے کی طرف نکل آئے تھے، یہاں پر ویانا کا نیچرل ہسٹری میوزیم پوری شان و شوکت کے ساتھ موجود ہے۔ یہ میوزیم نئے شاہی محل کا ایک حصہ ہی معلوم ہوتا ہے۔

اس شاہی محل کے سامنے بھی یورپ کے دیگر محلات کی طرح گھوڑے پر سوار ایک سورما کا مجسمہ لگایا گیا ہے۔ اسی اسکوائر سے دائیں طرف دیکھتے جائیں تو ماریا تھریسا پیلس کا علاقہ ہے جس کے بالکل ساتھ یہاں کی پارلیمنٹ کی پُرشکوہ عمارت ہے۔

ماریا تھریسا پیلس کے عین درمیان میں اس کا ایک قد آور مجسمہ لگایا گیا ہے، اسی اسکوائر کی دوسری طرف جدید آرٹ کی خوبی لیے چند عمارتیں موجود ہیں۔

میوزیم اسکوائر کا یہ پورا علاقہ آپ کو وقتی طور پر جدید ویانا سے دُور لے جاتا ہے، آپ چند لمحوں کے لیے ان تاریخی عمارتوں کے درمیان خود کو ٹائم مشین کے کسی سفر پر پاتے ہیں۔

ویانا کی صاف ستھری سڑکیں، تاریخی عمارتیں، شہر کے دل میں پھول بھرے باغ ذہن پر ایسی دلکش تصویر بناتے ہیں کہ پھر سے ویانا جانے کو دل چاہتا ہے۔


رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل کوپن ہیگن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شجر کاری اور مفت تعلیم کے ایک منصوبے سے منسلک ہیں۔ انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں اور ان کا یوٹیوب چینل یہاں سبسکرائب کریں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔


رمضان رفیق

رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔