نقطہ نظر

زہریلی غربت

لوگوں کو زمین کی غیر منصفانہ ملکیت کے طریقوں، جاگیرداری کلچر اور سرپرستانہ نظام کا خاتمہ فوری طور پر کیا جائے۔
آئی اے رحمٰن

اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ ملک میں شرح غربت 2001ء میں 64 فیصد تھی وہ گھٹ کر 2014ء میں 30 تک پہنچ گئی، تو کیا ملک کے ہر حصے میں یکساں طور پر غربت میں کمی آئی ہے؟ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ When Water Becomes a Hazard: A Diagnostic Report on the State of Water Supply, Sanitation and Poverty in Pakistan and its Impact on Child Stunting میں شامل شہری اور دیہی علاقوں کے حالات میں تضادات بااختیار افراد کو نیند سے جگانے کے لیے کافی ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق غربت کی سطحوں میں علاقائی لحاظ سے اور غربت میں کمی کی رفتار کے لحاظ سے بڑے بڑے تضادات پائے گئے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران غربت میں سب سے زیادہ کمی خیبرپختونخوا میں آئی، اس کے بعد پنجاب اور سندھ میں کمی واقع ہوئی، لیکن ملک کے غریب ترین صوبے بلوچستان میں 2014ء میں شرح غربت 57 فیصد تھی۔

لیکن نہ یہ حقیقت اور نہ ہی یہ انکشاف حیرت کا باعث ہونا چاہیے کہ دیہی علاقے شہری علاقوں سے غربت اور بنیادی سہولیات (صحت و تعلیم) تک رسائی میں پیچھے ہیں، بلکہ اصل حیرانی تو اس پر ہونی چاہیے کہ زیادہ آمدنی والے ضلعوں میں بھی انتہائی غربت والے علاقے موجود ہیں اور اس پر بھی حیرانی بنتی ہے کہ ’وہ ضلعے جن میں لاہور، راولپنڈی اور فیصل آباد جیسے بڑے شہر موجود ہیں، ان میں ضلعوں کے اندر عدم مساوات چھوٹے ضلعوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔‘

اس رپورٹ کا فوکس ’بچوں میں غذائیت کی کمی خاص طور پر بچوں کی نشونما رک جانے، غربت اور پانی و صفائی کی سہولیات کے درمیان تعلق‘ پر ہے اور یہ اس تباہی سے پردہ اٹھاتی ہے جو پینے اور دیگر ضروریات کے لیے صاف پانی کی عدم دستیابی سے آ رہی ہے۔ پانی، نکاسی آب اور صفائی کی سہولیات (WASH سہولیات) تک پہلے سے زیادہ رسائی کی وجہ سے کھلے عام رفع حاجت میں کمی ہوئی ہے، جو 05-2004 میں 29 فیصد سے 15-2014 میں گھٹ کر 13 فیصد رہ گئی ہے۔ رپورٹ اس بہتر صورتحال پر روشنی ڈالنے کے بعد آبی آلودگی روکنے میں شدید ناکامی کا ذکر کرتی ہے۔

دیہی علاقوں کی واش سہولیات تک رسائی شہری علاقوں کی بہ نسبت کافی کم ہے اور ’سرکاری شعبہ دیہی علاقوں میں پائپ کے ذریعے پانی تقریباً نہ ہونے کے برابر پہنچاتا ہے۔‘

انسانی فضلے یا آلودہ پانی کی انتظام کاری میں ناکامی دیہی پاکستان میں عوام کی صحت کے لیے ایک شدید خطرہ ہے۔ دیہی پنجاب میں تقریباً 42 فیصد گھرانے، دیہی خیبر پختونخوا میں 60 فیصد اور دیہی سندھ و بلوچستان میں 82 فیصد گھرانوں میں نکاسی آب کا نظام برائے نام بھی نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق ’فضلے سے بھرپور آلودہ پانی زیرِ زمین پانی کے ذخائر میں رس کر داخل ہوجاتا ہے یا پھر بہہ کر زمین پر موجود پانی میں داخل ہوجاتا ہے جس سے دونوں آلودہ ہوجاتے ہیں۔ انسانی فضلے پر مشتمل گندہ پانی زمینوں کو بھی آلودہ کر دیتا ہے۔‘

رپورٹ اختتام پر کہتی ہے کہ ’فضلے سے آلودہ پانی کی انتظام کاری میں سرمایہ کاری کی کمی اور غیر معیاری ٹوائلٹس میں اضافہ، پاکستان میں غذائیت کی کمی میں سب سے اہم وجہ ہے۔‘

رپورٹ میں دیہی پاکستان میں صفائی کی ناکافی سہولیات کی ایک وجہ 2004ء سے 2015ء کے درمیان صوبائی دارالحکومتوں کے لیے وسائل کا ترجیحی طور پر مختص کیا جانا ہے۔ لاہور کے لیے رقم کی فی کس تقسیم پنجاب کے دیگر تمام ضلعوں کی مجموعی اوسط سے 18 گنا زیادہ ہے۔ اس دوران کراچی کے لیے سندھ کے دیگر ضلعوں کے مقابلے میں فی کس 100 فیصد زیادہ رقم مختص کی گئی۔

رپورٹ قوانین کے اعتبار سے کئی تجاویز دیتی ہے جن پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کیونکہ شہری اور دیہی علاقوں اور شہری علاقوں کے اندر موجود عدم مساوات شاید اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔

یہ تجاویز کچھ یوں ہیں:

جہاں ہمیں ورلڈ بینک کا یہ یاد دلانے کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ بچوں کی صحت کو کیا خطرات لاحق ہیں اور قوم کو آگے لے جانے میں ذہنی اور جسمانی طور پر ناکام بچوں کی نسل پروان چڑھانے کے خطرات کیا ہیں، یا یہ کہ جدید دنیا کے کیا چیلنجز ہمارے منتظر ہیں، وہیں اس رپورٹ کا موضوع اور اس کے انکشافات ہمارے لیے نئے نہیں ہیں۔ کئی پاکستانی ماہرینِ اقتصادیات اور سماجی کارکنوں نے مختلف اوقات اور مختلف طریقوں سے علاقوں کے اندر اور علاقوں کے مابین عدم مساوات کی نشاندہی کی ہے اور دیہی علاقوں کے عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لیے خصوصی کوششوں کے مطالبات کیے ہیں۔

یہ انکشاف بھی نیا نہیں ہے کہ شہروں کی جانب منتقلی، غربت میں کمی اور پانی کی فراہمی اور نکاسی آب و صفائی کی سہولیات تک رسائی کے درمیان مضبوط تعلق ہے۔

کئی دہائیوں قبل ریاست کی جانب سے ترقی کا معیار اس کی آبادی، بشمول شہروں سے باہر رہنے والی آبادی کی شہری سہولیات مثلاً پینے کے لیے محفوظ پانی، بجلی، گھر سے نزدیک اسکول، بنیادی طور پر ضروری طبی سہولیات اور فائدہ مند ملازمت کے مواقع تک رسائی سے ناپا جاتا تھا۔ پاکستان کے لیے یہ ماڈل اکثر تجویز کیا جاتا ہے کیونکہ یہ شرحِ پیدائش، نومولود بچوں اور ماؤں کی اموات اور شہروں کی جانب منتقلی میں کمی کی یقین دہانی کرواتا ہے۔

مگر شہروں کی جانب منتقلی اور خدمات کی بہتر فراہمی بھی پاکستان کے شہریوں کی غربت میں کمی اور پانی اور صحت و صفائی کی سہولیات تک رسائی ایک حد تک بہتر بنا سکتی ہے۔

ملک بھر کی آبادی کو غربت سے نجات دلانے اور آلودہ پانی استعمال کرنے کے خطرات سے چھٹکارہ دلانے کو یقینی بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو زمین کی غیر منصفانہ ملکیت کے طریقوں، جاگیرداری کلچر اور سرپرستانہ نظام کا خاتمہ فوری طور پر کیا جائے۔

ان سمتوں میں بامعنی ترقی کے بغیر پاکستانی آبادی کا ایک بڑا حصہ بڑھتی ہوئی غربت، شہری کچی آبادیوں میں رہنے اور ملکی ترقی میں خواتین کے کردار کو نہ پہچاننے اور بچوں کی نشونما رک جانے میں پھنسا رہے گا۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار مین 15 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔

آئی اے رحمٰن

لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔