نقطہ نظر ہماری بیوروکریسی کو درپیش مسائل جب تک بیوروکریسی کو یقین نہیں دلایا جاتا کہ اس کے ارکان اور حکومت ایک ہی ٹیم کا حصہ ہیں، یہ کارکردگی نہیں دکھائے گی۔ تسنیم نورانی لکھاری سابق سول سرونٹ ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خان کو چینی قیادت کی جانب سے پرشکوہ گریٹ ہال آف پیپل اور دیگر ریاستی عمارتوں میں دیے گئے استقبال دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ کیا یہ استقبال دیکھ کر عمران خان کے ذہن سے یہ خیال گزرا کہ یہ عظیم الشان ریاستی عمارتیں فروخت کرنا یا انہیں تعلیمی ادارے یا عوامی مقامات میں تبدیل کردینا کروڑوں عوام کو غربت سے نکالنے کا واحد طریقہ نہیں ہے؟ یہ خیال اس لیے بھی زیادہ سیاق و سباق میں تھا کیونکہ وہ اپنے ہی بیان کے مطابق چین سیکھنے کے لیے گئے تھے۔ چینیوں کے پاس پاکستان کو سکھانے کے لیے بہت کچھ ہے مگر چلیں ان سے گورننس کے سبق سے شروع کرتے ہیں۔ وہ انتہائی سخت قومی سطح کے امتحان کے ذریعے سول سرونٹس بھرتی کرنے والے پہلے ملک ہیں۔ انہوں نے سول سروس کو 9 گریڈز میں تقسیم کیا جس میں بلند ترین گریڈ شہنشاہوں کا گرینڈ سیکریٹری اور اٹینڈنٹ کا ہوتا تھا جبکہ نچلا ترین گریڈ ٹیکس کلکٹر، ڈپٹی جیل وارڈن، ڈپٹی پولیس کمشنر کا ہوا کرتا تھا۔ اس مؤثر سول سروس کے مینڈارن کہلانے والے یہ ارکان تمام محکموں کو نہایت نظم و ضبط کے ساتھ چلایا کرتے اور چین کی کامیابی کی موجودہ کہانی کی بنیاد بھی اسی پر قائم ہے۔ ہماری سول سروس کو دیکھیں جسے برطانوی راج کا 'فولادی ڈھانچہ' کہا جانے لگا تھا۔ اس کی تباہی 1973ء کی سول سروس اصلاحات سے شروع ہوئی جس نے سب سے آئینی گارنٹیاں واپس لے لیں اور سول سروس کو 'اس کی جگہ' پر رکھ دیا۔ 1960ء کی دہائی کی جس مؤثر سول سروس کی بات عمران خان نے سول سرونٹس سے اپنے پہلے خطاب میں کی تھی، اس کی تباہی انہی اصلاحات سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد 1990ء کی دہائی کے اواخر میں عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی کا مرحلہ شروع ہوا جس میں انتظامیہ سے مجسٹریٹ کے زیادہ تر اختیارات لے کر عدلیہ کو دے دیے گئے۔ اور اگر یہی کافی نہیں تھا تو جنرل مشرف پھر مقامی حکومتوں کا اپنا وژن لے کر آگئے۔ کچھ پولیس افسران نے معمولی تنازعات کی وجہ سے انہیں مشورہ دیا جس کی بنیاد پر انہوں نے انتظامیہ سے وہ ذرا سے اختیارات بھی واپس لے لیے جس کی عدلیہ نے اجازت دی ہوئی تھی۔ چنانچہ اب ہمارے پاس ایسی انتظامی سروس ہے جس کے پاس اپنے کوئی حقیقی اختیارات نہیں مگر اس سے امن و امان سے لے کر تعلیم، صحت، صفائی، غیر قانونی تجاوزات، خوراک کی صفائی تک زمین پر موجود ہر چیز کا خیال رکھنے کی امیدیں وابستہ کر لی جاتی ہیں۔ حکومت اور عوام سول سرونٹس سے 1960ء کی دہائی والی سروس جیسی کارکردگی کی امید رکھتے ہیں مگر یہ احساس نہیں کرتے کہ اس وقت انتظامیہ کو شیر سمجھا جاتا تھا جبکہ آج کی سول سروس بغیر دانتوں والا شیر ہے۔ یہ صرف تب مؤثر ہوتی ہے جب غریبوں اور کمزوروں پر بات آئے۔ جیسے ہی کوئی سول سروس کے سامنے مزاحمت کرے یا اس کی حکم عدولی کرے تو سول سروس چھپ جاتی ہے۔ ہم پولیس فورس میں اصلاحات لانے اور اسے مؤثر بنانے کی الگ تھلگ کوششیں کر رہے ہیں۔ جب حکومتی رٹ مؤثر تھی تو پولیس اور مجسٹریسی ایک ہی سکے کے 2 رخ تھے۔ اب 'ایگزیکٹیو مجسٹریسی' کے لفظ کا پولیس مذاق اڑاتی ہے۔ 10 نوجوان لڑکوں کے بغیر روک ٹوک پوری ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو بند کروا دینے (جیسا کہ میں نے ذاتی طور پر تحریکِ لبیک کے حالیہ احتجاج میں دیکھا) اور ماڈل ٹاؤن آپریشن میں معصوم لوگوں کے قتل کے درمیان کچھ ہے ہی نہیں۔ 1960ء کی دہائی میں مشتعل ہجوم سے نمٹنا مجسٹریٹ کی ذمہ داری ہوتی تھی چاہے وہ یہ کام حربے سے کرتے، قائل کروا کر، مجسٹیریل طاقت کے ذریعے فی الفور ایکشن لے کر یا پھر آخری اقدام کے طور شیلنگ یا لاٹھی چارج کے لیے پولیس کو حکم دے کر اور اگر سب کچھ ناکام ہوجائے تو گولی چلانے کا ایک قانونی حکم دے کر۔ ذمہ داری مجسٹریٹ کی ہوتی، نہ کہ پولیس کی اور یوں پولیس اپنے خلاف ایکشن سے بچی رہتی۔ سول سروس تباہ کرنے کی اس جاری کہانی میں تازہ ترین قسط تمام ڈپٹی کمشنروں، ایس پیز، کمشنرز اور ڈی آئی جیز کی سرکاری رہائش گاہوں کی فروخت ہے کیونکہ یہ 'بہت بڑے' ہیں۔ میری معلومات کے مطابق اس مقصد کے لیے بنائی گئی کمیٹی کو 24 ہزار سرکاری جائیدادوں کی فہرست بھیجی گئی ہے۔ یہ دیکھنا نہایت دلچسپ ہوگا کہ حکومت کیسے اپنی اس بااصول اور مساوی پالیسی پر علمدرآمد کرتے ہوئے ڈیویژنل کمانڈرز اور کور کمانڈرز کی سرکاری رہائش گاہوں کو فروخت کرتی ہے۔ حکومتی جائیدادیں فروخت کرنے سے کچھ ارب روپے حاصل ہوسکتے ہیں جن کی وصولی شاید وزارتِ خزانہ نوٹ بھی نہ کرے، مگر ان سے ملک میں ریاست کی شان و شوکت ہمیشہ کے لیے کم ہوجائے گی اور ہمارے ہوشیار نوجوانوں کو سول سروس میں شامل ہونے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ وزیرِاعطم عمران خان کی ٹیم بظاہر یہ سوچ رہی ہے کہ بیوروکریسی اس لیے ڈیلیور نہیں کر پارہی کیونکہ اس کا جھکاؤ مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے۔ اس ملک اور اس کے حکمرانوں کے لیے اچھا ہوگا کہ وہ جتنا جلدی ہوسکے اپنے مخالفین کو ہر چیز کے لیے الزام دینا بند کردیں۔ بیوروکریسی اس لیے کارکردگی نہیں دکھا رہی کیونکہ اس کا مورال گرچکا ہے اور اسے فوائد میسر نہیں ہیں۔ یہ کہیں زیادہ محفوظ طریقہ کار ہے کہ بس ایک جانب بیٹھ کر کوئی فیصلے نہ لیے جائیں کیونکہ اگر بیوروکریٹس کوئی غلطی کر بیٹھیں تو ان کا دفاع کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں ہوگا۔ جب تک کہ بیوروکریسی کو یقین نہیں دلایا جاتا کہ اس کے ارکان اور حکومت ایک ہی ٹیم کا حصہ ہیں، یہ کارکردگی نہیں دکھائے گی۔ بیوروکریسی کے لیے واحد آپشن یہ ہے کہ یہ ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مضبوط تنظیموں اور یونینز کے ذریعے اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑی ہو تاکہ میڈیا کے ذریعے حکمرانی کے اس دور میں خود کو آواز فراہم کرسکے۔ انگلش میں پڑھیں۔ یہ مضمون ڈان اخبار میں 13 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔ تسنیم نورانی لکھاری سابق سول سرونٹ ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔