صحت

ذیابیطس کا عالمی دن: ہر چھٹا سیکنڈ ایک زندگی نگلنے لگا!

غیر متعدی امراض میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والا مرض شوگر ہے، تاہم اس سے محفوظ رہنا انتہائی آسان ہے۔

دنیا بھر میں ہر سال 14نومبر کو انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کے تحت شوگر کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد دنیا میں عام آگاہی پھیلانا اور انسولین کے موجد فریڈرک بینٹنگ (Fredrick Banting) کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

فریڈرک بینٹنگ (Fredrick Banting) کا یوم پیدائش 14نومبر ہے، یاد رہے کہ فر یڈرک بینٹنگ کے ساتھ دوسرے سائنس دان جنہوں نے انسولین کی دریافت میں اہم کردار ادا کیا، ان کے نام چارلس بیسٹ (Charles Best) اور جان جیمز ریکڈ میکلوڈ (John James Rickard Macleod)ہیں، انہوں نے مل کر 1922ء میں انسولین دریافت کی تھی۔

آئی ڈی ایف اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) نے شوگر کی بڑھتی ہوئی خطرناک شرح کے پیش نظر عوام میں شوگر سے بچاؤ اور بروقت علاج کے لیے عام آگہی پیدا کرنے کیلے پہلی بار 1991 کو شوگر کا عالمی دن منایا تھا۔

شوگر عالمی دن پر ہم آپ یہ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ یہ کن عام وجوہات سے ہوتی ہے اور اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے۔

پاکستان میں بھی شوگر کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے—فوٹو: اینڈوکرائن ویب

شوگر کی بنیادی وجوہات

موٹاپا

غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی (Sedentary LifeStyle)

خاندان میں شوگر کے مرض کا عام ہونا (Family History)

غیرمتوازن غذا (Non-Healthy Food)

بڑھتی ہوئی عمر

بلڈ پریشر (Hypertension)

خون میں چکنائی کا عدم توازن (Dyslipidemia)

آئی ڈی ایف ہر سال عالمی دن کو ایک عنوان دیتی ہے جس کامقصد شوگر کی عام وجوہات، اسباب، تحفظ اور باقاعدگی سے علاج کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہوتا ہے اور رواں برس اس تنظیم نے خاندان کی اہمیت کے پیش نظر عنوان دیا ہے۔

یہ بیماری خاندانی بھی ہوتی ہے—فوٹو: ذیابیطس یوکے

شوگر اور خاندان (Diabetes and Family)

ہم ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں غیر متعدی امراض (Non-Communicable Diseases) سے فوت ہونے والوں کی تعداد متعدی امراض سے فوت ہونے والوں سے زیادہ ہے، یاد رہے کہ غیر متعدی امراض میں شوگر سرفہرست ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ "Global Status Report on Non-Communicable Diseases 2014" کے مطابق غیر متعدی امراض دنیا میں ہونے والی کل اموات کا 68 فیصد بنی تھیں، ان اعداد وشمار کی "IDF Atlas 2015" کی رپورٹ میں بھی تصدیق کی گئی تھی، اس Atlas کے مطابق شوگر سے مرنے والوں کی تعداد 50 لاکھ تھی، جو کہ ٹی بی، ملیریا اور ایڈز سے ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد سے تقر یباً 15لاکھ زیادہ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہترین اور بدترین مشروبات

پاکستان میں نیشنل ذیابطیس سروے آف پاکستان (National Diabetes Survey of Pakistan-NDSP) شوگر پر ہونے والا سب سے معتبر اور بڑا سروے تصور کیا جاتا ہے، جو فروری 2016 سے اگست 2017 کے درمیان پاکستان کے چاروں صوبوں کے شہری اور دیہی علاقوں میں کیا گیا تھا۔

یہ سروے وفاقی وزارت صحت کے تحت پاکستان میڈیکل اینڈ ریسرچ کونسل، ذیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان اور بقائی انسٹی ٹیوٹ آف اینڈوکرائنولاجی اینڈ ذیابطولاجی کے تعاون سے منعقد کیا گیا تھا۔

اس سروے کی رپورٹ برٹیش میڈیکل جرنل اوپن 2018 میں شائع ہوچکی ہے، اس سروے کے مطابق پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی شرح 26 اعشاریہ 3 فیصد ہے، جس میں سے 19 فیصد سے زیادہ مریض اپنے مرض سے آگاہ تھے، جب کہ 7 فیصد کے قریب مریضوں کو سروے کے دوران ہی پتہ چلا کہ وہ اس مرض کے شکار ہو چکے ہیں۔

یاد رہے یہ شرح 1998میں شائع ہونے والے پہلے سروے سے 22 اعشاریہ 4 فیصد زیادہ ہے، ایک خطرناک پہلو جو اس سروے میں سامنے آیا وہ "Pre-Diabetes"مریضوں کا ہے، جن کی شرح تقریباً 15 فیصد ہے، یعنی Pre-Diabetes وہ مریض ہیں جو شوگر کے مرض میں مبتلا ہونے کے قریب ہیں اور اگر یہ ان عوامل (Risk Factor) پر توجہ نہیں دے گے تو آنیوالے چند سالوں میں شوگر کے مرض مبتلا ہوجائیں گے۔

گلوبل اسٹیمیٹ آف دی پریولنس آف ذیابیطس فار 2010 اینڈ 2013 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک میں آنے والے کچھ عشروں میں شوگر کے مرض میں 67 فیصد شرح کا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

پاکستان کی 26 فیصد آبادی شوگر کی مریض ہے—فوٹو: کانٹینٹ پی کے

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ شوگر کی وجہ سے ہر 6 سیکنڈز کے بعد دنیا میں کہیں نہ کہیں ایک فرد اپنی جان کھو بیٹھتا ہے۔

شوگر ایک ایسا مرض ہے جو کم و بیش جسم کے ہر نظام کو متاثر کرتا ہے، اس کے اثرات فرد سے لے کر معاشرے تک محیط ہیں، شوگر جسمانی، ذہنی، سماجی اور معاشی لحاظ سے انسانی معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آئی ڈی ایف نے اس سال خاندان کو عنوان میں ڈال کر معاشرے میں شوگر کے اثرات کا شعور اجتماعی سطح پر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

مزید پڑھیں: بلڈ شوگر لیول کو صحت مند سطح پر رکھنے کے 6 طریقے

کیوں کہ ڈاکٹر اور مریض کے بعد معاشرے میں خاندان پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مریض اور مرض دونوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔

خاندان شوگر کے انفرادی کنٹرول (Diabetes Self Management Education) میں اہم کردار کرسکتا ہے، تاہم خاندان کے افراد کی جانب سے شوگر کے بارے میں کم علمی اور خاندان کی خستہ معاشی حالات کی وجہ سے خاندان بھی شوگر کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو سکتا ہے۔

خاندان میں شوگر کے بارے میں مناسب علم ہونے کے باعث ایسے افراد کی نشاندہی اور تشخیص بر وقت عمل میں لائی جاسکتی ہے جو شوگر میں مبتلا ہونے کے شدید عوامل (Risk Factors) اپنے اندر رکھتے ہیں۔

خاندان کے افراد میں شوگر کی لاعلمی سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں—فوٹو: ویٹرنز ہیلتھ لائبریری

آئی ڈی ایف کے مطابق وزن کے مناسب ہونے، متوازن غذا کے استعمال اور صحت مندانہ طرز زندگی اختیار کرنے سے شوگر کے 80 مریض اپنے مرض سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہائی بلڈ شوگر کی 7 واضح علامات

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرد، خاندان اور معاشرے میں شعور اور آگاہی کس حد تک پائیدار اور مستقل تبدیلیاں لا سکتی ہے۔

اس عنوان کو پاکستانی معاشرے میں عام کرنے کے لیے’’صحت فاؤنڈیشن‘‘ نے اپنے ایک ذیلی پروجیکٹ ذیابیطس اینڈ فوٹ کیئر کلینک کے تحت نومبر میں سوشل میڈیا پر مہم چلائی اور لوگوں میں شوگر سے متعلق شعور پیدا کرنے کی کوشش کی۔

صحت فاؤنڈیشن کے ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں اس مرض کو پھیلنے اور اسے کنٹرول کرنے کے لیے ضلعی سطح پر شوگر سینٹرز کا قیام کرنا ناگزیر بن چکا ہے، جب کہ اس حوالے سے ڈاکٹرز کی پروفیشنل تربیت کرنا بھی لازمی ہے۔

علاوہ ازیں متوازن اور صحت مندانہ طرز زندگی کی ضرورت و اہمیت کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا بھی اہم ہے۔


ڈاکٹر محمد ارشد صدیقی لاہور کے معروف میو ہسپتال میں کنسلٹنٹ، ڈائی بیٹالوجسٹ ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ drwaqasahmed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔