تمہارے آنے کا شکریہ جاناں!
جہاں زاد، کیا تمہیں کبھی کسی نے بتایا کہ تمہارا وجود کسی بھی ویرانے کو گھر بناسکتا ہے؟ ایسا گھر جہاں انسان تمام دن کا تھکا ہارا داخل ہو تو اس گھر کی دہلیز اُس کے قدم چوم کر اس کی ساری تھکان پی جاتی ہے؟ ایسا گھر جو بانہیں کھول کر جس کو اپنی آغوش میں لے، اسے زندگی کے تھپیڑوں اور حالات کی سختی سے محفوظ کرلیتا ہے؟
بچپن سے سنا تھا کہ مکان صرف 2 ہی صورتوں میں گھر بنتا ہے، ایک جب آپ کی ماں وہاں رہتی ہو اور دوسرا جب آپ سے محبت کرنے والی عورت وہاں بستی ہو۔ میں نے اپنی ماں کو نہیں دیکھا سو مجھے تمہارے آنے سے پہلے یہ احساس ہی نہیں تھا کہ گھر کسے کہتے ہیں۔ یہ بات تو میں شروع دن سے جانتا تھا کہ تم صدا کے لیے رہنے کو نہیں آئی۔ ہم جیسوں کے نصیبوں میں گھر نہیں ہوتا۔ تم جب سے گئی ہو میں بے گھر ہوگیا ہوں۔ بے گھری عذاب ہے جاناں۔ تم جو گئی تو اپنے ساتھ میرا گھر لے گئی۔ مجھ سا وحشتوں کا مارا اب کہاں رہے گا؟ مجھ سا بدنصیب اب کہاں رہے گا؟
جانِ عزیز! تم نہیں جانتی، مگر تم بہاروں کو اپنی پلو میں لیے گھومتی ہو۔ تمہاری ایک مسکراہٹ کائنات بھر کے اندھیروں کو شکست دے سکتی ہے۔ بالکل ویسے جس طرح ایک ننھا سا دیا کائنات کے تمام اندھیروں کو شکست دے دیتا ہے۔